[]
دہلی کے نواحی شہر گروگرام میں پرتشدد واقعات کے بعد سینکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر والے اس شہر میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان واقعات سے بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اٹھائیس سالہ عزیر (تبدیل شدہ نام) سن 2019 سے گروگرام میں مقیم ہیں اور ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے برانڈز کی ڈیجیٹل اور پرفارمینس مارکیٹنگ کی ایجنسی چلاتے ہیں۔ وہ گروگرام (سابقہ گڑگاؤں) کے سیکٹر 26 کی ایک ‘محفوظ‘ سوسائٹی میں رہتے ہیں اور اپنی ظاہری مسلم شناخت مثلاً داڑھی رکھنے اور ٹوپی پہننے وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں۔
عزیر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”بالعموم جو مسلمان داڑھی رکھتے اور ٹوپی پہنتے ہیں، ان کے ساتھ تفریقی رویہ زیادہ دیکھنے میں آتا ہے اور یہ جھجھک ہمیشہ لاحق رہتی ہے کہ ہر کسی کو اپنا پورا نام نہ بتایا جائے یا پھر اسلامی طرز تخاطب یعنی کھل کر سلام کرنے سے بچا جائے۔‘‘
عزیر کہتے ہیں کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی مذہب کی بنیاد پر تفریق کے حوالے سے بدنام ہے۔ ”یہاں یوں بھی مسلما ن کم تعداد میں ہیں، اس لیے اپنی شناخت بڑی حد تک چھپا کر رکھنا پڑتی ہے اور اگر مجبوراً شناخت ظاہر کرنا بھی ہو تو ایسا زیادہ واضح طور پر نہیں کیا جاتا۔‘‘
عزیر کا حالانکہ یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں، وہاں چند دیگر مسلمان بھی رہتے ہیں اور ایک مرکزی دروازے والی محفوظ سوسائٹی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی سکیورٹی کے حوالے سے بھی کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ تاہم جب ہریانہ کے میوات۔نوح کے علاقے میں 31جولائی کو تشدد کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ بدامنی اگلے ہی دن گروگرام تک بھی پہنچ گئی، تو عزیر کے اہل خانہ نے فون کر کے انہیں فوراﹰ اپنے آبائی علاقے جھاڑکھنڈ لوٹنے یا پھر کسی مسلم اکثریتی محلے میں منتقل ہو جانے کے لیے کہا۔ عزیر کا مگر کہنا ہے کہ وہ فی الحال تو اس سلسلے میں کچھ نہیں سوچ رہے ہیں تاہم جس طرح کے حالات ہیں، ان کے مدنظر آنے والے سالوں میں وہ اپنا بزنس مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں منتقل کرنے پر غور کریں گے۔
گروگرام کے امیج کو دھچکہ
ونیت آر رائے کی صبح گوگل اور سوشل میڈیا پر گروگرام کے متعلق خبریں دیکھنے سے شروع ہوتی ہے۔ ونیت نیوز ویب سائٹس پر اپنے شہر کے بارے میں خبریں پڑھنے کے بعد ہی اپنے دن کی تیاری کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کرتے تھے تاہم حالیہ دنوں میں جس طرح کے پرتشدد واقعات گروگرام میں پیش آئے، ان کے بعد یہ اب ان کا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔
ایک پرائیویٹ پبلک ریلیشنز کمپنی میں کام کرنے والے 37سالہ ونیت گروگرام کے سیکٹر 65 میں رہتے ہیں۔ ان کا گھر بادشاہ پور کے قریب ہے۔ 31جولائی کو نوح۔میوات میں مذہبی جلوس کے دوران پرتشدد واقعات کے اگلے ہی روز یعنی یکم اگست کو بادشاہ پور میں بھی پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔ ونیت ایک موسیقار بھی ہیں اور ریکارڈنگ کے لیے انہیں بادشاہ پور میں اپنے اسٹوڈیو میں بھی جانا پڑتا ہے۔ ونیت کہتے ہیں کہ جب بادشاہ پور میں پرتشدد واقعات ہوئے، تو وہ گھر پر ہی تھے اور سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کے ذریعے مسلسل اپ ڈیٹس لے رہے تھے۔
ونیت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”میں گزشتہ چار سال سے اس شہر میں رہ رہا ہوں اور یہاں رہتے ہوئے خود کو بہت محفوظ محسوس کرنے لگا تھا۔ بادشاہ پور میں، جہاں تشدد ہوا، وہاں سے میرا گھر صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر میں خبریں نہ دیکھتا، تو مجھے ان واقعات کا علم ہی نہ ہو پاتا۔ جب مجھے اس تشدد کا علم ہوا، تو میرے دل میں خوف سما گیا اور میں سوچنے لگا کہ گھر سے باہر جاؤں یا نہ جاؤں۔‘‘ ونیت کا کہنا ہے کہ شہر میں جس طرح کا ماحول بنا تھا، اس کی وجہ سے ان کا خاندان جو راجستھان میں رہتا ہے، وہ بھی گھبرایا ہوا تھا اور مسلسل فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتا رہا تھا۔
چکا چوند والا شہر اور اس کی حقیقت
بھارت کے قومی دارالحکومت دہلی کے قریب واقع ہونے اور سستی زمین ملنے کی وجہ سے ہریانہ میں سینکڑوں فیکٹریاں قائم ہوئیں اور ملکی اور غیرملکی کمپنیوں نے اپنے دفاتر کھولے۔ گوگل، امریکن ایکسپریس، ڈیل، سامسنگ اور ارنسٹ اینڈ ینگ جیسی متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر بھی یہاں ہیں۔ ماروتی سوزوکی کمپنی نے اپنا پہلا کارخانہ ہریانہ ہی میں مانیسر میں کھولا تھا۔
گروگرام ایک وقت گڑ گاؤں کے نام سے مشہور تھا لیکن سال 2016 میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کی ریاستی حکومت نے دلیل یہ دی تھی کہ یہ ہندو دھرم کے ایک اساطیری گرو ‘درون‘ کا شہر ہے، جہاں وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس شہر کی آبادی تقریباً 15لاکھ ہے اور یہاں بھارت کے ہر کونے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کسی بڑی کمپنی کا سی ای او ہو یا پھر کوئی گھریلو ملازمہ یا ڈرائیور، ہر کوئی روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کرتا ہے۔
گروگرام اور تنازعے کا باہمی تعلق
حالیہ برسوں میں گروگرام کئی مرتبہ غلط اسباب کی وجہ سے خبروں میں رہا۔ کبھی جمعے کی نماز پڑھنے کے سلسلے میں تو کبھی ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کے دوران گوشت کی فروخت کی وجہ سے بھی یہاں تنازعات ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں جمعے کی نماز پڑھنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب نہیں ہو پاتی۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے سابق رکن اور گروگرام میں رہنے والے محمد ادیب کہتے ہیں کہ تشدد کے جو حالیہ واقعات پیش آئے ہیں، وہ اچانک نہیں ہوئے بلکہ ان کی تیاری برسوں سے ہو رہی تھی اور بی جے پی اور ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس یہ کام کئی سالو ں سے کر رہی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”خواہ وہ گجرات ہو، مدھیہ پردیش یا پھر ہریانہ، آر ایس ایس نے ایک ایسا طبقہ تیار کر دیا ہے، جو ایک عرصے سے اس طرح کی ہنگامہ آرائی کرتا رہا ہے۔‘‘ محمد ادیب کے مطابق، ”یاترائیں (ہندو مذہبی جلوس) بھی ہتھیاروں کے ساتھ چلتی ہیں اور تشدد بھی اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ”اگر سمجھ دار حکومت ہو گی، تو اس کے سامنے ترقی کا ایجنڈا سرفہرست ہو گا۔ لیکن موجودہ حکومت کے لیے ترقی اب پہلی ترجیح نہیں ہے۔ پہلی ترجیح یہ ہے کہ 2024ء کے اگلے عام انتخابات میں کامیابی کس طرح حاصل کی جائے؟‘‘
اس سابق رکن پارلیمان نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، جس کی بنیاد پر وہ آئندہ حکومت سازی کے لیے عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ لیکن یہ پارٹی کسی بھی قیمت پر آئندہ الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”بی جے پی نہ تو معیشت کے نام پر ووٹ مانگ سکتی ہے اور نہ ہی خوشحالی کے اپنے وعدوں کی بنیاد پر جیت سکتی ہے۔ کسانوں سے لے کر نوجوانوں تک سب بے روزگار ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس طرز عمل کو درست بھی ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ عدالتوں سے لے کر جتنے بھی آئینی ادارے ہیں، وہ سب یا تو ان کے قابو میں ہیں یا ان سے خوف زدہ ہیں۔‘‘
محمد ادیب کہتے ہیں کہ اب یاترائیں سڑکوں پر نکالی جاتی ہیں اور مسجدوں کے سامنے تلواریں لہرائی جاتی ہیں۔ اس پر تو عدالتیں کوئی کارروائی نہیں کرتیں لیکن یاتراؤں پر پتھراؤ کے الزامات لگا کر مسلمانوں کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گروگرام میں آدھی رات کو مسجد پر حملہ ہوا، تو ریاست میں بی جے پی کی حکومت مشکل میں پڑ گئی کیونکہ وہاں پتھراؤ جیسا کوئی واقعہ تو ہوا ہی نہیں تھا۔
امراء کا شہر گروگرام
بھارتی روزنامے ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گروگرام بھارت کے امیر ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر ملک کے ان شہروں کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے، جہاں سے سب سے زیادہ ٹیکس جمع ہوتے ہیں۔ گروگرام میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں اور انہوں نے سال دو ہزار بائیس تیئیس میں چالیس ہزار کروڑ روپے بطور ٹیکس ادا کیے۔ ان میں سے دس ہزار کروڑ روپے کا ٹیکس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے نے ادا کیا۔
محمد ادیب کہتے ہیں، ”گروگرام ہریانہ کا انتہائی اہم شہر ہے اور ریاست کو سب سے زیادہ آمدنی اسی شہر سے ہوتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے۔ کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ امیج خراب ہونے سے غیر ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں سے اپنا سرمایہ نکال بھی سکتی ہیں۔‘‘
بھارت کے معروف انجینیئرنگ کالج انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی کے ریٹائرڈ پروفیسر وی کے ترپاٹھی گزشتہ پندرہ سال سے میوات جاتے رہے ہیں۔ وہ نوح اور تاوڑو کے درمیان واقع ایک اسکول میں پڑھانے جاتے ہیں۔ ان کے دوست محمد جان اس اسکول کے منتظم ہیں۔ ترپاٹھی کہتے ہیں، ”کئی برسوں سے وہاں ایک خاص مندر میں ‘جل ابھیشیک‘ (مورتی پر پانی ڈالے جانے کی رسم) ہوتی آئی ہے لیکن پچھلے تین چار برسوں سے اس کا انعقاد کافی بڑے پیمانے پر ہونے لگا اور اس مرتبہ تو (ہندو شدت پسند تنظیم) بجرنگ دل نے خود اس کی قیادت کی۔ یاترا کے دوران لوگ ہتھیار لے کر چل رہے تھے اور یاترا سے پہلے ہی کئی طرح کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔‘‘
ترپاٹھی بتاتے ہیں کہ میوات میں تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگ ‘جل ابھیشیک‘ میں مدد کرتے آئے ہیں لیکن پچھلے پانچ چھ سال سے وہ خود کو ہتک آمیز رویے کا شکار محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”چونکہ وہاں لنچنگ کے واقعات ہوئے اور لنچنگ کے ملزمان کی حمایت میں بڑی بڑی پنچایتیں بھی ہوئیں، جن میں ہلاک شدگان اور متاثرین کی کردار کشی تک کی گئی اور ایک طرح سے ملزمان کے اعمال کو جائز قرار دینے کی کی کوشش بھی کی گئی۔‘‘ ترپاٹھی کہتے ہیں کہ یاترا کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ اس کے بعد بھی میوات کے لوگوں نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا، لیکن تشدد کے واقعات اور لوگوں کی ہلاکتیں انتہائی افسوس کی بات ہے۔
اقلیتوں میں خوف
ہریانہ حکومت کا کہنا ہے کہ میوات میں تشدد میں شامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہریانہ میں تشدد کے سلسلے میں اب تک 176افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور 93 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ عزیر کہتے ہیں کہ ان کے غیر مسلم دوستوں اور بزنس پارٹنرز نے انہیں رہنےکے لیے اپنے ہاں آ جانے کی پیشکش بھی کی تھی اور کہا تھا کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے، وہ ان کے ہاں رہ سکتے ہیں۔ عزیر فی الحال گھر سے ہی آن لائن کام کر رہے ہیں۔
گروگرام کے رہنے والے کئی مسلم خاندانوں کے لوگ دہلی میں اپنے کسی نہ کسی رشتے دار کے ہاں یا کسی ہوٹل میں منتقل ہو گئے ہیں۔ کئی لوگ یہ شہر چھوڑنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو گھروں سے آن لائن کام کرنے کے لیے بھی کہہ دیا ہے۔ ہریانہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریاست میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ لیکن ایسی رپورٹیں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ مغربی بنگال اور بہار جیسے صوبوں سے آئے ہوئے اقلیتی طبقے کے غریب لوگوں کو کچی بستیاں خالی کر دینے کے سلسلے میں دھمکیاں بھی دی گئیں، جن کے بعد وہ وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔