[]
زکوة کا نصاب
اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو یا اسی مالیت کے کرنسی نوٹ ہوں یا سامان تجارت ہو یا ضرورت سے زائد اتنی مالیت کا سامان موجود ہو تو اسے صاحب نصاب کہتے ہیں اس پر زکوة فرض ہو جائے گی اور سال گزرنے پر چالیسواں حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مستحقین پر خرچ کرنا فرض ہو جائے گا۔ زکوة اور صدقات واجبہ نافلہ فقراء ،مساکین، عاملین اور موٴلفة القلوب غلاموں کو آزادی حاصل کرنے ،مقروض لوگوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہوئے لوگوں اور مسافروں کے لئے ہے۔
زکوة کی ادائیگی
ہر صاحب نصاب شخص پر جب اس کے مال پر سال گزر جائے تو زکوة نکالنا فرض ہو جاتا ہے اب اگر نیت زکوة کی کر کے ایک ہی دفعہ نکال کر تقسیم کر دے تب بھی درست ہے رقم نکال کر علیحدہ ایک جگہ رکھ دی اور تھوڑی تھوڑی دیتا رہا تب بھی درست ہے اس کے لیے نیت زکوة کرنا ضروری ہوگا۔ اگر تمام زکوة نکال دی تھی اور تقسیم بھی کر دی تھی اب اس پر جب سال گزرے گا تو تب ادائیگی زکوة فرض ہوگی۔ ایک شخص زکوة دے چکا تھا اور اسے کوئی بہت اہم جگہ ضرورت والی نظر آ گئی تو اب وہ اگلے سال کی جو زکوة نکلنے کی توقع ہے پیشگی نیت کر کے اس وقت بھی دے سکتا ہے۔
ادائیگی زکوة کے بہت سے اسرار و مصالح ہیں زکوة سے تزکیہ نفس ہوتا ہے، زکوة دولت کی بیماریوں کا علاج ہے، زکوة کے بہت سے معاشرتی فائدے ہیں، زکوة گداگری کے خاتمہ کا بھی ذریعہ ہے، زکوة ایک بہترین معاشی محرک ہے، زکوة سے ذخیرہ اندوزی کا بھی خاتمہ ہوتا ہے اور زکوة غیر فطری معاشی عدم مساوات کا بھی خاتمہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زکوة ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔