ویڈیو: سی اے اے، شہریت چھیننے کا نہیں بلکہ شہریت دینے کا قانون ہے:کوثر جہاں

[]

نئی دہلی: سی اے اے کے ذریعے کسی سے شہریت نہیں چھینی جا سکتی، بلکہ یہ توشہریت دینے کا قانون ہے اپوزیشن جماعتوں نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ سی اے اے سے ان کی شہریت کو خطرہ ہے  جبکہ اس صریح جھوٹ کا سچ سے کوئی تعلق نہیں ان خیالات کااظہار دہلی اسٹیٹ حج کمیٹی کی چیرپرسن کوثر جہاں نے کیاہے ذرائع کے مطابق انھوں نے کہاکہ مرکز کی مودی حکومت کے ذریعہ ترمیم شدہ شہریت ترمیمی قانون ایک بار پھر خبروں میں ہے۔

سی اے اے کو پارلیمنٹ نے 11 دسمبر 2019 کو نافذ کیا تھا۔ چونکہ اپوزیشن نے بارہا مودی حکومت کو مسلم مخالف حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے،یہی وجہ ہے کہ مودی کے خلاف احتجاج میں سی اے اے کے خلاف مختلف مقامات پر مسلمانوں کو الجھا کر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اگر کورونا کی وبا نہ آتی تو ممکن تھا کہ سی اے اے مخالف مظاہرے مزید طول پکڑتے۔

محترمہ کوثر جہاں کے مطابق اب تو مرکزی حکومت نے سی اے اے کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن ایک بار پھر سی اے اے کے خلاف مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی اپوزیشن کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ جہاں ایس پی ترجمان نے سی اے اے کے خلاف احتجاج میں شاہین باغ کو دہرانے کا انتباہ دیا، وہیں کئی دیگر تنظیمیں/ افراد سی اے اے کے خلاف احتجاج کا انتباہ دے رہے ہیں۔

یہاں سے سوال پیدا ہوتا ہے؟ جب سی اے اے کی وجہ سے کسی کی شہریت کھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر اس کی مخالفت کیوں؟ جب مرکزی وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ‘ہمارے مسلمان بھائیوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور اکسایا جا رہا ہے۔ سی اے اے صرف ان ممالک کے اقلیتی لوگوں کو شہریت دینا ہے جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے بعد ہندوستان آئے ہیں۔ ’’یہ کسی کی ہندوستانی شہریت چھیننے کے لیے نہیں ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہاکہ مرکزی وزیر داخلہ کی اس یقین دہانی کے باوجود سی اے اے کے خلاف لوگوں کو گمراہ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ایشو کو اپوزیشن اور وہ لیڈر جو اب تک مودی کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، مسلمانوں کی لڑائی میں مسلمانوں کے کندھوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کو اس سازش کو پہچاننا ہوگا اور ایک بار پھر اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا مودی حکومت کی اب تک لائی گئی تمام اسکیموں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے؟ نہیں، لیکن اس کے باوجود کچھ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے مودی سرکار کو مسلم دشمن ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ جہاں تک سی اے اے کا تعلق ہے، یہ شہریت دینے کا قانون ہے، کسی کی شہریت چھیننے کا نہیں۔

کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم نہیں ہوا؟ اپنی جان بچانے کے لیے ان تین پڑوسی ممالک سے ظلم و ستم کا شکار ہو کر ہندوستان آنے والے مہاجرین کو ہندوستانی شہریت دی جارہی ہے، تو اس میں غلط کیا ہے؟

دہلی اسٹیٹ حج کمیٹی کی چیئرپرسن نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی زمینیں مذہبی اقلیتوں کے لیے ہمیشہ مشکل رہی ہیں، حکومت ہند نے ان ستائے ہوئے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لیے سی اے اے لایا تھا۔ ظاہر ہے کہ مسلمان ان مذہبی اقلیتوں میں شامل نہیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کو سی اے اے سے باہر رکھا گیا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے لیے ہندوستانی شہریت کے دروازے بند ہیں، ان کے لیے بھی قانون میں کوئی بندوبست ہے۔ جبکہ سی اے اے کے تحت 31 دسمبر 2014 سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے چھ غیر مسلم کمیونٹیز کو شہریت دینے کا انتظام ہے۔

وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ برائے 2021-22 کے مطابق یکم اپریل 2021 سے 31 دسمبر 2021 تک ان غیر مسلم اقلیتی برادریوں کے کل 1414 غیر ملکیوں کو ہندوستانی شہریت دی گئی ہے۔ جن 9 ریاستوں میں شہریت دی گئی ہے ان میں گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ، پنجاب، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، دہلی اور مہاراشٹر شامل ہیں۔

انھوں نے مزید کہاکہ اب حکومت نے باضابطہ طور پر سی اے اے کوقانونی شکل دے کر نافذ کردیاہے، تاکہ ظلم و ستم کا شکار ہو کر ہندوستان میں پناہ لینے والے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت دے کر قومی دھارے میں لائے۔ ہندوستان کی ثقافت وسودھیو کٹمبکم کی رہی ہے، آج دنیا ہندوستان کی طرف امیدبھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، شاید اسی لیے ہندو، سکھ، بدھ اور عیسائی، جو پڑوسی ممالک میں ظلم و ستم کا شکار تھے، پناہ لینے کے لیے ہندوستان کا انتخاب کیا۔ اگر وسودھیو کٹمبکم جیسی عظیم ثقافت والا ملک بھی ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا تو پھر کون اترے گا؟

اس سوال کے ساتھ یہاں یہ بات بھی دہرانا ضروری ہو گیا ہے کہ کسی بھی مسلمان کو سی اے اے کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ شہریت دینے کا قانون ہے، شہریت چھیننے کے لیے نہیں، اس لیے کنفیوژن پیداکرنے کے جال سے بچنا ضروری ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *