[]
مہر خبررساں ایجنسی ، گروہ دین و عقیدہ؛ انسان اپنی زندگی میں ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتا ہے کیونکہ انسان ایک ضرورتمند مخلوق ہے۔ ان ضروریا ت کو غلط تشخیص دیں یا ان کا صحیح حل نہ نکالیا جائے تو مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔ انبیاء الہی کا ہدف انسانوں کو ان کی ضروریات فراہم کرنا اور مشکلات اور خطرات سے بچانا ہے۔ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل کیا تاکہ اس کتاب کے ذریعے انسان اپنی ضروریات پاسکے اور مشکلات کو دور کرسکے۔
قرآن کریم کی تعلیمات کا نعم البدل انسان نہیں لاسکتا ہے اگرچہ اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ وہی لوگ گمراہی اور مشکلات سے بچ سکتے ہیں جو اس آسمانی کتاب کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اگر کوئی اس قرآن کریم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے اور اٹھتے بیٹھتے اس کی تعلیمات پر عمل کرے تو نور ہدایت سے منور ہونے کے ساتھ ترقی کا راستہ طے کرنے میں کئی گنا زیادہ توانائی حاصل کرسکتا ہے۔
قرآن سے استفادہ کرنے کے لئے اس میں غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ حفظ قرآن کے ساتھ اس میں غور و فکر بھی کیا جائے تو انس میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ تلاوت قرآن کے نتیجے میں ہماری زندگی میں بھی قرآنی تعلیمات کااثر ظاہر ہونا چاہئے۔
سورہ بقرہ کی آیت 218 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أُولَٰئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌبے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا وہ رحمت الٰہی کی امید رکھتے ہیں اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔
اللہ پر ایمان سے مراد دل سے ایمان لانا اور اس پر اعتماد کرنا ہے اور ہجرت کرنے سے یہی واضح ہورہا ہے کہ ان کا ایمان صرف زبان تک محدود نہیں بلکہ عمل سے بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ مومنین کبھی تھکاوٹ کا شکارہوکر گوشہ نشین نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ جدوجہد کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمت کی امید کرتے ہیں۔
عطر خوشبو دیتا ہے۔ اس کی خوشبو سے استفادہ کرنے کے لئے جیب میں رکھنا کافی نہیں بلکہ اس کو جسم اور لباس پر لگانا پڑتا ہے تاکہ اس کی خوشبو سے انسان خود اور دوسرے معطر ہوسکیں۔ ایمان بھی دل کا عطر ہے چنانچہ دل کے کسی کونے میں رکھ دیا جائے تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہے پس انسان کے اعضاء و جوارح سے اس کے اثرات ظاہر ہونا چاہئے۔ ایمان کے اثرات میں سے ایک اللہ کی راہ جہاد اور ہجرت ہے۔
ہجرت کا معنی صرف گھر بار چھوڑ کر شہر سے نکلنا نہیں ہے۔ اگر انسان کا دین اور ایمان خطرے میں ہو تو کسی کام کو چھوڑ کر دوسرا کام انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کسی دوست کو چھوڑنا پڑتا ہے کبھی کسی گروہ کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب ہجرت کے مصداق ہیں۔
ایمان کے اثرات انسان کے اعضاء جوارح سے ظاہر نہ ہوں تو قرآن اس ایمان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ ابلیس سب سے پہلا مومن تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے سے پہلے اس نے کئی سال اللہ کی عبادت کی تھی لیکن عین موقع پر اس کا ایمان اس کے دل تک محدود رہ گیا اور ابلیس کے کام نہ آیا۔
دشمن عرصہ دراز سے اس منصوبے پر عمل کررہے ہیں کہ عمل کے بغیر ایمان کافی ہے۔ یہ درحقیقت قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ قرآن ان لوگوں کے بارے میں کہتا ہے: وَمَا أُولَٰئِکَ بِالْمُؤْمِنِینَ اور وہ لوگ مومن نہیں ہیں۔
ہجرت ایمان کا بہترین نمونہ ہے۔ ہجرت کا مطلب ایک ملک یا شہر کو چھوڑنا نہیں بلکہ کسی ہدف مثلا اسلامی معاشرے کی تشکیل یا اس سے ملحق ہونے کی خاطر کسی چیز سے ہاتھ اٹھانے کو ہجرت کہتے ہیں۔