[]
لندن: برطانوی دارالحکومت لندن میں جنگ بندی کے مطالبے کے حق میں ہفتے کے روزایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
مطاہرین اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اب تک تقریباً 31 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کر رہے تھے، ان ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد فلسطینی بچوں اور عورتوں کی شامل ہے۔
یہ مظاہرے ہلاکتیں روکنے کے لیے تھے تاہم میڈیا اور برطانوی پولیس ان مظاہروں کو یہود مخالف مظاہرے قرار دیتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں سال کے دوران فلسطینیوں کے حق میں اور غزہ میں جنگی جارحیت کے خلاف یہ پانچواں بڑا احتجاجی مظاہرہ تھا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک پولیس کو کئی ہفتوں سے سختی کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔ ان کے مطابق پولیس ان مظاہرین کو پوری سختی سے روکے حکومت پولیس کی حمایت کرے گی۔
العربیہ کے مطابق رشی سونک نے کہا تھا ‘ بلا شبہ پولیس کام مشکل ہے مگر ہمیں اب ایک لکیر کھینچنا ہو گی۔’پولیس کا بھی ان مظاہرین کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے، مظاہرین کے سڑکوں پر آنے سے اب تک پولس کے 41 ملین پاؤنڈ کے اخراجات ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ میں یہودی کمیونٹی ان بہت بڑی تعداد میں جمع ہونے والے مظاہرین سے بہت تنگ ہیں،اسرائیل کی غزہ میں جنگ اور اسرائیل کے حق میں مظاہروں کو منظم کرنے والے ایتائے گالمڈی کا کہنا ہے’ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں نے یہودیوں کے لیے ‘ نو گو ایریاز’ بنا دیے ہیں۔ یہ مظاہرے اسرائیل کے خلاف احتجاجی غبارے میں ہوا بھرنے کا کام کر رہے ہیں۔’
ان کا مزید کہنا تھا ‘ یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ یہودی برطانیہ کی گلیوں میں اس لیے نہ نکلیں کہ کوئی سڑکوں پر غزہ میں جنگ کرانے لیے مظاہرہ کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں بہت ہو چکا اب ہم خوف میں نہیں رہ سکتے۔’
ہفتے کے روز لندن میں رواں سال کے پانچویں بڑ احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کرنے والوں کے منتظم بن جمال کا کہنا ہے ‘ ہم غزہ میں جنگ بندی تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے، ہمارا یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک برطانوی حکومت اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا اور کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر اسرائیلی جبر ختم نہیں ہوجاتا۔’ پانچ ماہ کی جنگ کے دوران اب تک غزہ میں تقریباً اکتیس ہزار فلسطینی ہلاک اور 23 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں
برطانیہ میں یہ احتجاج کئی ماہ سے جاری ہے اور مسلسل پرامن ہے، اب تک کے احتجاج کی شدت میں بس ایک واقعہ پیش آیا جس میں 1917 کے اعلان بالفور کے بانی سابق برطانوی وزیر خارجہ بالفور کی ایک تصویر پر رنگ والا برش پھیر دیا گیا ہے۔
اسی بالفور نے یہودیوں کو یورپ سے نکالنے کیے فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے لیے یہودیوں کو راضی کیا تھا۔جس کے نتیجے میں فلسطینی اکثریتی آبادی کی مرضی کے بغیر وہاں یہودیوں کو ایک ریاست دے دی گئی جبکہ لاکھوں فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیاتھا۔
پولیس نے تصدیق کی ہے کہ آن لائن رپورٹ سے معلوم ہوا کہ بالفور کی ایک تصویر کو یونی ورسٹی آف کیمبرج میں نقصان پہنچا ہے اور اس تصویر پر برش سے رنگ پھیر دیا گیا۔ یہ واقعہ مشرقی انگلینڈ میں پیش آیا ہے۔
پولیس کے ایک ذمہ دار کیرن فائنڈلے جنہوں نے لندن میں کئی ماہ سے احتجاج کو ڈیل کیا ہے کہتے ہیں ‘ ہم واضح طور پر ایک ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری یہودی اور مسلم کمیونٹیز لندن میں یہود دشمنی اور مسلم دشمنی پر مبنی نفرت انگیز جرائم اور اپنے تحفظ کے احساس کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔’