[]
مولانا ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
اولیاء اللہ کی برکتوں سے ہر زمانے کے لوگ اور ہر علاقے کے افراد بلالحاظ مذہب و ملت فیضیاب ہوتے رہے ہیں‘ ہمارے حیدرآباد دکن کی سرزمین زمانہ قدیم ہی سے اولیائے کرام کی آمد سے شرف یاب ہوتی رہی ہے بلکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پورے برصغیر میںعموماًاور سرزمین ہند پراسلام کی جوروشنی نظر آتی ہے وہ بلاشبہ اولیاء اللہ کے فیضان اور ان کی بے تھکان جد جہد کا نتیجہ ہے بادشاہانِ زمانہ نے اپنی حکومت وسلطنت کے پھیلاؤاوربقاء پر ساری توانائیاں صرف کیںجو ان کو کسی حد تک اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق کامیابیاںدلانے میں کارگرہوئیںتاہم اس کے بعد نہ ان کا آج کرّ وفرباقی ہے اورنہ ان کی حکومت وسلطنت ‘برخلاف اس کے اولیاء اللہ نے اعلائے کلمۃ الحق واشاعت اسلام کے لئے حقیقی نمونہ عمل بن کراخلاق وکردار کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ان کی ان خلوص سے بھر پور للہیت سے معمور کوششوں اور کاوشوں نے دور دور تک تعلیمات اسلام کونہ صرف پھیلایا بلکہ ان پھیلانے والوں کانام اور ان کا کام آج بھی زندہ و تابندہ ہے صدیاں گذر جانے کے باوجود بھی مخلوق خدا کے دلوں میں بلا لحاظِ مذہب وملت ان کی محبت کا چراغ روشن ہے جس کی تاریخ کتابوں میں موجود ہے اسی تاریخ کا ایک سنہرا ورق آج ہم دیکھنے اور پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ابھی حیدآباد کا موجودہ شہربسا بھی نہیں تھا ‘نہ توقلعہ گولکنڈہ کی سلطنت قائم ہوئی تھی اور نہ اس علاقہ میں اسلام کی کرنوں نے اپنا ڈیرہ جمایاتھا بلکہ اس وقت یہ علاقہ ورنگل کی عظیم کاکتیہ سلطنت کے زیر نگیں تھااس وقت کہیں کوئی اکّادکّا مسلمان تجارت کی غرض سے اس طرف آجاتا تو اسے یہاں کے لوگ ’’ تُرکُلّو‘‘کی شناخت سے جانتے تھے کیونکہ ملک ہند کا شمالی حصہ مختلف مسلمان حکمرانوں کی آمد ورفت کی وجہ سے مسلمانوں سے آشنا تھا لیکن جنوبی ہند کا علاقہ ابھی مسلمانوں سے واقف نہیں ہوا تھا آہستہ آہستہ لباس انداز اور زبان کی وجہ سے ان لوگوں کو پہچانا جارہاتھا اسی لئے لفظ مسلمان کے بجائے مقامی لوگوں نے ان آنے والے مسلمانوں کو تُرک سے آئے ہوئے افراد سمجھ کر اپنے طور پراُن کو ’’ تُرکُلّو‘‘کانام دیدیا جو آج بھی تلگو زبان میں مستعمل ہے چنانچہ موجودہ دور میں تلگو سے واقف حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ آپس میں تلگوداں حضرات مسلمان کیلئے اسی لفظ ’’ تُرکُلّو‘‘ کا استعمال کرتے ہیں ۔اُن حالات میں اس علاقہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف کرنے والی عظیم شخصیت کا نام سلطان العارفین حضرت بابا شرف الدین سہروردی ؒ ہے۔جن کی مقبولیت کا اثر یہ ہے کہ علاقہ دکن کے موجودہ شہر حیدرآباد کا جنوبی علاقہ بابا صاحب کی پہاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
آپ کانام نامی اسم گرامی حضرت مخدوم سید شرف الدین سہروردی عراقی اور مشہور لقب حضرت’’ باباشرف الدینؒ ‘‘ہے۔یہ بات مشہور ہے کہ آپ والد کی طرف سے نسب بنی فاطمہ حسینی سادات سے ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۶ ؍شعبان ۵۸۶ھ م ۱۱۹۰ء بمقام عراق بتائی جاتی ہے اسی لئے آپ کے نام مبارک کے ساتھ عراقی کی نسبت بھی موجود ہے۔آپؒ کا سلسلہ نسب یوں بتایا جاتا ہے:حضرت مخدوم بابا سید شرف الدین سہروردی عراقیؒ ابن حضرت سید محمدؒ ابن حضرت سید محمودؒ ابن حضرت سید احمدؒ ابن حضرت سید عبد اللہؒ ابن حضرت سید علی اصغرؒ ابن حضرت سید محمد ابو جعفرثانی ؒابن حضرت سیدنا امام علی نقیؓ ابن حضرت سیدنا امام جواد تقیؓ ابن حضرت سیدنا امام علی موسیٰ رضاؓابن حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم ؓابن حضرت سیدنا امام جعفر الصادقؓ ابن حضرت سیدنا امام محمد باقرؓ ابن حضرت سیدنا امام علی زین العابدین ؓابن حضرت سیدنا امام حسینؓ شہید دشت کربلاؓابن حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ
آپؒ کے متعلق محققین نے لکھا ہے آپ بعمر(۴۵)سال ملک عراق سے ۶۳۱ھ(م1233/1234ء)میں ہندوستان تشریف لائے اس وقت شمالی ہند میں دلی اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں پر سلطان شمس الدین التمش بادشاہ کی حکومت تھی تقریباً(۹) نو سال مختلف علاقوں کے سفر کے بعد آپ نے دکن کا رُخ کیا ۔
مولانا ابوتراب عبدالجبارخان ملکاپوری صاحب محبوب التواریخ کے ایک بیان کے مطابق ۶۴۰ھ م ۱۲۴۲ء میں آپ بعمر چوپن(۵۴) ملک دکن رونق افروز ہوئے ۔آپ کی تشریف آوری کے زمانے میں دکن کے اطراف واکناف میں اسلام کے پودے جم رہے تھے اور شہروں و قریوں میں آہستہ آہستہ دین محمدی کے پرچم نصب ہورہے تھے اولیاء اللہ و تاجرین کے قافلے عرب وعجم سے برابر آرہے تے بزرگ واہل اللہ ملک میں اس غرض سے تشریف لاتے تھے کہ اہل اصنام کو تالیف قلوب وحسن سلوک سے راہ حق کی ہدایت کریں‘اولیاء اللہ کے تصرفات وکرامات دیکھکر غیروں کے دل نرم پڑنے لگے وہ لوگ موافقت کرنے لگے اور بزرگوں کو اس ملک میں رہنے کے لئے حالات سازگار بنے رفتہ رفتہ بزرگوں کے کرشمے دیکھکر اکثر راجے مہاراجے وظائف مقرر کرنے لگے اور حسن اعتقاد سے خدمات میں حاضر ہونے لگے۔
حضرت سیدبابا شرف الدین قبلہؒ سلسلہ سہروردیہ کے بلند پایہ ولی کامل ہیں۔سرخیل سلسلہ سہروردیہ شیخ الاسلام حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ کے مرید خاص اور خلفائے کبار میں سے ہیں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا کہ آپ کو سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ سے بیعت وخلافت تھی جو درست نہیں چنانچہ مولانامحمدعبدالجبار خان ملکاپوری مولف محبوب ذوالمنن تذکرۂ اولیائے دکن اس بارے میں لکھتے ہیں ’’تاریخ خورشید جاہی کے مولف نے لکھا ہے کہ آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ؒ کے مرید وخلیفہ ہیں لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا معلوم ہوتا ہے کہ بلا تحقیق صرف سماعت کے اعتماد پر لکھ دیا ہے‘‘۔
سلطان الہند‘خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نوازؒ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملک ہند کی طرف روانہ فرمایاہے اسی لئے آپ کو عطائے رسول بھی کہا جاتا ہے حضرت باباشرف الدین ؒسے متعلق بھی یہ بات مشہور ہے کہ آپ بھی بحکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملک دکن کی طرف اشاعت دین حق کے لئے رونق افروز ہوئے اور بڑی نرمی وپیار اور حسنِ اخلاق کے ذریعہ اسلام کی روشنی سے اس علاقہ کو اور یہاں کے رہنے والوں کے دلوں کو منور کیا چنانچہ محبوب ذو المنن تذکرۂ اولیائے دکن معروف بہ محبوب التواریخ میںلکھا ہے ’’ بابا شرف الدین عراقی ؒ حسب ارشاد وہدایت حضرت رسالت پناہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشاعت اسلام کے لئے دکن آئے۔آپ ؒ کے ہمراہ (۶۰)ساٹھ(۷۰)ستر فقراء بھی تھے ‘آپ ؒ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول اور مریدین کی ہدایت وتلقین میں مصروف رہتے تھے اکثر اہل ہنود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ کے حسن اخلاق سے فیض پاتے تھے۔اکثرآپ کی ہدایت سے موحد ومسلم ہوئے ۔آپ نے اپنے مریدوں کو دکن کے دیہات وقصبات میں ہدایت وتالیف قلوب کے لئے روانہ کیا‘‘۔حدائق الاولیاء کے حوالہ سے جناب مولانامحمد عبدالجبار ملکاپوریؒ لکھتے ہیں ’’حضرت بابا شرف الدین ؒ کی تشریف آوری سے دکن میں یہ غرض تھی کہ دینِ محمدی کی اشاعت ہو بنائً علیہ (اسی بنیادپر)آپ اہل اصنام کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے تھے۔ہر ایک راجا وپرجا (خاص وعام)کے ساتھ نرمی سے پیش آتے یہی وجہ تھی کہ آپ کے پاس صبح وشام جوق درجوق (وہ لوگ) آتے تھے آپ صاحب کشف کرامات مقبول الدعوات بزرگ ولی اللہ تھے ‘جوزبان مبارک سے فرماتے تھے وہی ہوتا تھا‘‘۔
کتاب سلطان العارفین مطبوعہ ۱۳۶۴ھ حیدرآباد کے مصنف پیر زادہ سید دستگیر پادشاہ ؒجودرگاہ شریف کے سجادہ تھے کے مطابق انھوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ملک دکن میں دور دراز گاؤں وقصبات میں جہاں جہاں گھنے جنگلات اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بزرگان دین کے مزارات ہیں وہ بالعموم اولیائے سہروردیہ کے ہیں۔جو حضرت باباشرف الدین ؒسے ہدایت پاکر تبلیغ دین واشاعت اسلام کے لئے بھیجے گئے تھے۔
حضرت بابا شرف الدین ؒکے حالات پر اردو میں سب سے پہلے تفصیلی و تحقیقی کتاب لکھنے کا شرف میرے حقیقی دادا حضرت مفتی ومحدث وشیخ الدلائل فی الدکن سیدالصوفیہ ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔحسنی حسینی قادری ؒ کو ملا کہ آپ نے آج سے (۱۰۴)سال قبل ۱۳۴۰ھ میں ترتیب وجمع کرکے اپنے والد ومرشد سیدالسادات شیخ الشیوخ امام الصوفیہ حضرت صوفی اعظم قطب دکن ؒ کی موجودگی میں’’حالات باباشرف الدین پیرؒ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا تھا جسکے کئی اڈیشن ہاتھوں ہاتھوں نکل کر عوام وخواص میں مقبول ہوئے ۔آخری اڈیشن والدی ومرشدی مولائی وقار الصوفیہ مصباح المسرین حضور اعظم المشائخ حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظمؔحسنی حسینی قادری ؒنے ۱۳۸۴ھ م ۱۹۶۴ء میں طبع کروایاتھا۔
آج جس جگہ اونچے پہاڑ پر آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق بناہوا ہے اسی علاقہ میں آپ کا قیام تھا اور ایک غار میں آپ نے مسلسل (۹)سال تک ریاضت وعباد ت کی اور پھر بعمر ۶۳سال غار سے باہر تشریف لائے یہ مقام’’چلہ حضرت بابا صاحبؒ‘‘کے نام سے آج بھی موجود ومشہور ہے جہاں کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے زائرین آج بھی اس مقام پر حاضری دیا کرتے ہیں ۔آپ سے متعلق بے شمار کرامات مختلف کتب میں مذکور ہیں جس کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس انتہائی نازک دور میں اہل اللہ نے ایک تو حسن اخلاق اور دوسرے روحانی کمالات اور کشف وکرامات (نوٹ: کرامات باباشرف الدین ؒ کے عنوان سے ایک اور تفصیلی مضمون نذر قارئین کیا جائے گا ان شاء اللہ) کے ذریعہ غیروں کو رام کیااور ان کے دلوں میں شمعِ توحید روشن کی جبکہ دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اہل اسلام اپنے اہل وعیال اور لڑکے ولڑکیوں کو تعلیمات اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے میں ماحول کی ناساز گاری کے پیش نظر دشواری محسوس کررہے ہیں ۔
سلطان العارفین قطب الہند غوث دکن حضرت سیدنا بابا شرف الدین سہروردی ؒ نے بتاریخ ۱۹؍شعبان المعظم ۶۸۷ھ م۱۲۸۶ء بعمر(۱۰۱)سال وصال حق فرمایا۔اور اسی مقام پر سپردلحد کئے گئے جہاں آج بھی آپ ؒکا مزار اقدس مرکز انواروتجلیات بناہواہے۔انا للہ واناالیہ راجعونo
آپ کا مادہ تاریخ وصال ’’آہ شرف الدین بابا‘‘ ہے۔ آپ مرد میدان تجرید تھے اس لئے اپنے حقیقی برادرزادے سید فرید الدین سہروردیؒ بن سید موسیؒکو اپنا جانشین بنایا تھا جن کا مزار باباسرکار کے پائیں میں بائیں جانب واقع ہے البتہ مشرقی سمت سیڑھیوں سے اُترنے پر کہاجاتا ہے کہ بابا سرکار کے چھوٹے برادر حقیقی حضرت سید موسیٰ ؒ اور ان کی اہلیہ یعنی بابا سرکارؒ کی بھاوج صاحبہؒ کے مزارات ایک چبوترہ پر واقع ہیں۔
آپ کے ایک بھائی حضرت سید شہاب الدین سہروردی ؒ بھی تھے جن کا مزار شمس آباد کے قریب پہاڑی پر موجود ہے آپ بھی صاحب کشف و کرامات تھے جامع الفضل والکمال تھے اور مکارمِ اخلاق کی پاسداری کے باعث خلائق میں بیحد محبوب ومقبول تھے جن کا وصال ۲۱ ؍محرم الحرام ۶۹۱ھ یعنی باباسرکارؒ کے (۴)سال بعد ہوا ۔اناللہ واناالیہ راجعونo
حضرت بابا شرف الدین ؒ کی مزار شریف سے خاص وعام ہر زمانہ میں بلا لحاظِ مذہب وعقیدہ فیض پاتے رہے ہیں راقم الحروف آج سے ۴۰ یا ۴۵سال قدیم وہ منظر نہیں بھول سکتا جب شاہ علی بنڈہ کے بعد انجن باؤلی سے آگے کم آبادی کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت صرف دن کے اوقات میں ہوا کرتی تھی اور پھر بعد میں بارکس کے ساکنان کی وجہ سے اس سڑک پر کچھ کچھ گہما گہمی دکھائی دیتی تھی لیکن بارکس کے آگے پہاڑی شریف کی کمان تک سنسان علاقہ صرف دن کے وقت جانے آنے کے قابل ہوا کرتا اگر کوئی شام کے وقت وہاں سے واپس ہونے میں تاخیر کردے تو رات اسی پہاڑی شریف علاقہ میں گذارنا پڑتا تھا لیکن تیزی کے ساتھ آبادیوں کے بڑھنے کی وجہ سے پچھلے بیس پچیس سال میں ساری شاہراہ شہر سے پہاڑی شریف تک آباد اور بارونق ہوگئی ہے۔ایرپورٹ بننے کے بعد تو وہ سڑک دن رات گاڑیوں کی آمد ورفت سے ہر لمحہ آباد رہتی ہے ۔
زمانہ قدیم سے ہی پہاڑی شریف پر اہل شریعت و طریقت بزرگان دین کی نہ صرف حاضری ہوا کرتی ہے بلکہ بارگاہ حضرت بابا شرف الدین ؒ کے قرب وجوار میں چلہ کشی اور حصول فیوض و برکات سے کئی اہل اللہ شرفیاب ہوتے رہے ہیں چنانچہ خاندان قادریہ صوفیہ کے عظیم بزرگ جامع شریعت وطریقت امام الصوفیہ سید السادات شیخ الشیوخ حضرت علامہ ابوالعابد سیدشاہ اعظم علی صوفی اعظمؔدرویش حسنی حسینی قادری المعروف بہ حضرت صوفی اعظم قطب دکن ؒ( المتوفی ۱۳۴۹ھ)بھی بڑی عقیدت وخلوص کے ساتھ حضرت بابا سرکار ؒ کے پاس حاضر ہوا کرتے چنانچہ ۱۳۱۷ھ میں آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد بہت ساری دوائوں کے استعمال کے باوجود صحت یاب نہ ہونے پر حضرت باباصاحب قبلہؒ کی پہاڑی شریف پر چند دن کی اقامت کے خیال سے تشریف فرماہوئے اور یہ نیت کی کہ اگر صحتیاب ہوجائیں تو آستانہ کے فقراء ومساکین کی طعام سے خدمت کریں گے دوسرے روز اپنے مقام سے فاتحہ وزیارت کے ارادہ سے سیڑھیوں تک پیدل تشریف لے گئے اور نہایت عالی ہمتی کے ساتھ بسم اللہ پڑھکر سیڑھیاں چڑھنے لگے زائد از تین سو سیڑھیاںچڑھکر مزار پُر انوار پر فاتحہ گذرانی اور پھر اسی قدر سیڑھیوں کو طئے کرتے ہوئے واپس اپنے مقام پر جب واپس آئے تو سارا مرض بالکل زائل اور معدوم ہوگیا تھا بیماری کا کوئی اثر محسوس نہیں ہورہا تھا اور آپ اکثر فرمایا کرتے کہ ہمارے سلوک ومجاہدہ کا آغاز اسی آستانہ پر ہوا ہے ۔آپ کے فرزند اکبر وجانشین حضرت سید الصوفیہ مفتی صوفی صفیؔؒ کی حضرت بابا سرکارؒ سے بے پناہ محبت وعقیدت کا جیتا جاگتا نمونہ آپ کی تحریر کردہ اردوزبان میں سب سے پہلی تفصیلی وتحقیقی تصنیف ’’حالات باباشرف الدین پیرؒ‘‘ عرف سوانح باباؒ ہے اور پھر آپ کے خاندان میں باباسرکارؒ سے جو عقیدت ومحبت کا سلسلہ جاری ہے اس کی ایک دلیل حضرت والدی ومرشدی حضرت اعظم المشائخؒ کا پہاڑی شریف حضرت باباشرف الدین ؒ کے قریب ہی بلکہ آپ کے زیر سایہ خطۂ زمین کو بمقام شاہین نگر خرید کر مسجد‘ خانقاہ‘ وایوان صوفی اعظم کے نام سے اپنی آخری آرام گاہ کیلئے منتخب کرنا بھی ہے ۔جہاں آپ کا آستانہ مرکز فیضان اولیاء اللہ بطفیل باباسرکار ؒ بنا ہوا ہے۔آپ ؒ کی رقم کردہ منقبت ِ باباسرکار ؒ کے ایک ایک لفظ سے محبت اور عقیدت کے چشمہ پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔
اسی طرح خانوادۂ شرفیہ کے بڑے بڑے بزرگ حضرت بابا شرف الدین ؒ کی بارگاہ میں حاضری دیا کرتے جن میںقطب زمن حضرت مولاناسید شاہ محمد غوث محی الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒ اورآپ کے سارے ہی فرزندان وافراد خاندان حصول فیض کیلئے آیا کرتے خصوصاً تاج العرفاء حضرت سید شاہ محمد سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒاپنے ارادت مندوں کے ہمراہ اکثر حاضر ہوتے ماضی قریب میں آپ کے فرزند و سجادہ نشین تاج العرفاء صہری الکریم حضرت علامہ ڈاکٹر سید شاہ محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒ بھی بڑی عقیدت کے ساتھ حاضرہوا کرتے تھے اور بہ پابندی عرس شریف حضرت بابا سرکارؒ کے موقع پر کئی سال خطاب فرمایاجس کا سلسلہ تادم وصال جاری رہا۔
یہ سلسلہ فیضان آج بھی کئی مفتیان کرام ‘علمائے ذیشان‘ و حفاظ قرآن ونیز خواص و عوام کو مستفید کررہا ہے ۔جامعہ نظامیہ کے سابق مفتی وشیخ المعقولات حضرت مولانا مفتی محمد ولی اللہ قادری ؒ(المتوفی ۱۴۲۷ھ) کی ولادت کے وقت آپ کے والد گرامی جناب محبوب قادری( ؒ جو سید الشیوخ حضرت مولانا سید عمر حسینی قادری ؒ(قادری چمن )کے ارادت مند تھے)نے اپنے گھر لڑکے کی ولادت پر خوشی ومسرت میں اپنے پیر ومرشد کو اطلاع دینے کی غرض سے نکلے تو معلوم ہوا کہ پیر ومرشد ؒ پہاڑی شریف پر چلہ کش ہیں وہاں پہنچے اور اطلاع دے کر نام رکھنے کی درخواست کی تو اُن کے پیرومرشدؒنے فرمایااس وقت میں اللہ کے ایک ولی کی بارگاہ میں لھٰذا نومولود کا نام ’’ولی اللہ‘‘رکھدواور یہ حضرت حافظ ولی اللہ قادری ؒ راقم الحروف کے دادااستاذ ہوتے ہیں۔حضرت ولی اللہ صاحب قبلہ ؒکو حضرت بابا سرکارؒ سے بڑی عقیدت ومحبت تھی ہر سال ماہ شعبان میں قبل از رمضان اپنے شاگرد رشید یعنی میرے استاذ محترم بانیٔ دارالعلوم النعمانیہ شیخ الحفاظ حضرت ڈاکٹر حافظ شیخ احمد محی الدین قادری شرفی قبلہ مدظلہ کولے کر پابندی کے ساتھ پہاڑی شریف حاضری دیا کرتے احقر راقم الحروف کو بھی متعدد بار حضرت ولی اللہ ؒ کے ساتھ بھی حاضرِدربار باباسرکارؒ ہونے کا شرف حاصل ہوا اور اسی زمانہ سے یہ روایت ہر سال جاری ہے کہ آغاز رمضان سے پہلے استاذ محترم حضرت شیخ الحفاظ مدظلہ اپنے کثیر تلامذہ حفاظ علماء ‘مفتیان عظام ومشائخ کرام کے ہمراہ حاضر ہواکرتے ہیں جن میں قابل ذکر مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ؒ‘ مصباح القراء حضرت مولانا عبداللہ قریشی الازہری ؒخطیب مکہ مسجد ‘حضرت مولانا قاضی حافظ سید محبوب حسینؒ امام مکہ مسجد‘حضرت مولاناسید شاہ عبد الحفیظ حسینی قادری شرفی مدنی صاحب ؒ‘ضیاء المشائخ حضرت مولاناسید قبول پاشاہ قادری شطاری مدظلہ معتمد صدر مجلس علمائے دکن ‘وغیرہم کئی مرتبہ پہاڑی شریف پر اس محفل تکملہ دور قرآن میں شریک رہے ہیں جس میں بعد ختمِ قرآن کریم خصوصی دعا برائے جمیع حفاظ وعامۃ المسلمین ہواکرتی ہے ۔
دکن کا سارا علاقہ اسلام کی روشنی سے جو آباد ہے وہ حضرت بابا سرکارؒکا احسان مند ہے اور حیدرآباد کا چپہ چپہ آپ کے فیضان اور انوار سے پچھلی تقریباً آٹھ(۸)صدیوں سے منور ومعطر ہے ہر ماہ پہاڑی شریف پر ماہانہ فاتحہ ہواکرتی ہے اور ماہ شعبان میں شب برائت کے بعد عرس حضرت باباسرکارؒ کی سارے علاقے میں دھوم رہتی ہے ۔اس سال ۷۵۸واں عرس شریف بڑی ہی عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد ہورہا ہے جس میں دور دراز سے عاشقان اولیاء اللہ خصوصاًمحبان باباسرکارؒ ہزاروں کی تعداد میں شرکت وحصول برکت کیلئے حاضر رہیں گے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فیوض وبرکات اولیاء اللہ سے اور خصوصاًباباسرکار کے فیضان سے مالامال فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
(نوٹ: مضمون ھذا کی تیاری میں کتب ذیل سے استفادہ کیا گیا :محبوب ذوالمنن تذکرہ ٔ اولیاء دکن ازمحمدعبدالجبار ملکاپوریؒ‘حالات باباشرف الدین پیر عرف سوانح بابااز حضرت سید الصوفیہ مفتی صوفی الصفیؔؒ‘تذکرہ اولیائے حیدرآبادازمراد علی طالع‘ؔتاریخ صوفیہ کرام از صوفی اسمٰعیل قادری ‘تاریخ خورشید جاہی ازغلام امان خان‘)
٭٭٭