سیرتِ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

[]

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

اسلامی قوانین کے مآخد واصول دوہیں: قرآن کریم اور حدیث شریف۔ یہ بات واضح ہے کہ عہد نبوی میں تمام صحابہ کرام فرمانِ نبوی اور آپ کے عمل شریف کی پیروی کرتے رہے اور قرآن کریم وحدیث شریف کو حفظ کے ذریعہ اور تحریر کے ذریعہ ضبط فرما تے رہے، اسطرح کلام الٰہی صحابہ کرامؓ کے سینوں میں محفوظ رہا، لیکن یکجا کتابی شکل میں مکمل طور پر موجود نہ تھا، جب جنگ یمامہ میں ستر(۷۰) حفاظ صحابہؓ دور خلافت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں شہید ہوئے تو سید نا عمر فاروقؓ کے مشورے سے قرآن کریم کو ایک جگہ کتابی شکل میں جمع کیا گیا جب خلفاء راشدین کے دور میں کئی ملک فتح ہوئے اور اسلام عرب وعجم میں دور دور تک پھیلتا گیا تو نو مسلم حضرات اور عجمیوں کیلئے دینِ اسلام پر عمل کرنا دشوارہونے لگا۔

یہ حقیقت ہے کہ کلامِ خدا وکلامِ رسول ؐسے مسائل کا استنباط و استخراج ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام نے ساری انسانیت سے فصاحت وبلاغت میں اس کے ہم مثل کلام لانے کا چالنج کرتے ہوئے فرمایا: فأتوا بسورۃ من مثلہ ’’اے لوگو! تم قرآن کریم کے ایک سورت کے مثل کوئی ایک سورت لے آئو۔‘‘ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: فُضلت علی الانبیاء بست: أعطیت جوامع الکلم (مسلم)’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء پر چھے چیزوں کے ذریعہ فضیلت عطا فرمائی ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے یعنی مختصرا لفاظ میں ڈھیر سارے معانی اور مطالب پنہا ہوتے ہیں اس کلام کو صرف ماہر فن ہی سمجھ سکتے ہیں۔

‘‘یعنی مجتہد وفقیہ ہی مسائل شرعیہ کا استخراج کر سکتے ہیں، شریعت مطھرہ میں فقہا ء ومجتہدین کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد (ترمذی ، ابن ماجہ) ’رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘ اسی غرض کی خاطر رب تعالیٰ نے فقہائِ کرام کو پیدا فرمایا۔جن میں سب سے عظیم وپہلے فقیہ اعظم نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہ ؒہیں۔آپ سن اسّی۸۰ھ سر زمین کوفہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے آپ کے علمی مقام کی پیشن گوئی فرمادی تھی ،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: لو کان الایمان عند الثریا لتناولہ رجال من فارس (مسلم) ’’

اگر ایمان ثریا کے پاس ہو تب بھی اس کو ابنائِ فارس میں سے ایک صاحب اس کو حاصل کر لیں گے۔‘‘ علمائِ عرب وعجم اس بات پر متفق ہیں کہ اس حدیث شریف میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بشارت اور فضیلت ہے اور اس حدیث شریف کا مصداق آپ کی ذات گرامی ہی ہے، کیونکہ آپ کے سوا کوئی بھی ابناء فارس میں آج تک آپ کے جیسا کوئی امام، محدث، فقہہ مجتہد نہیں گزرا۔

یہ حقیقت ہے کہ عوام الناس کو شریعت پر عمل کرنے کیلئے تقلید کے سواء کوئی چارہ ہی نہیں ، جس کا حکم قرآن و احادیث شریفہ میں جگہ جگہ موجود ہے، طوالت کی وجہ سے یہاں اس بحث کو چھوڑ دیا جا رہا ہے،بعض لوگ بڑی آسانی سے کہتے ہیں ائمہ کی تقلید کیوں کریں؟ جب کہ ہمارے پاس قرآن اور حدیث شریف موجود ہے۔ اس طرح کہتے ہوئے عوام الناس کو با آسانی حدیث شریف سے چند مسائل پیش کرکے بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا واقعی یہ علماء و عوام الناس قرآن و احادیث شریفہ سے مسائل کا استنبا ط کر کے عمل کر سکتے ہیں، اس بات کو سمجھنے کیلئے یہاں نمونے کے طور پر دو تین مسائل پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

مثلاً سورہ انعام میں ہے: وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ (سورہ انعام)’اور جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائوایسا کرنا فسق(گناہ) ہے‘ بظاہر اس آیت کی مخالفت اس حدیث شریف سے ہو رہی ہے،جس میں: اللہ کے رسول ﷺ سے ایک سائل نے سوال کیا ، عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بعض لوگ دیہات سے ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیںاور ہمیں معلوم نہیں رہتا کہ اُنہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: سمّوا اللہ علیھا ثم کلوھا :’اس پر بسم اللہ پڑھو اورکھالو‘۔ آیت کریمہ میں جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کے کھانے سے منع کیا گیا جبکہ حدیث پاک میں اس کو کھانے کا حکم دیا گیا، کیا عام آدمی ان دونوں میں تطبیق کر سکتا ہے؟ امام اعظم ؒ فرماتے ہیںکہ آیت شریفہ پر اس طرح عمل ہو گا کہ اگر کوئی مسلمان ذبح کے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دے تو اس کو ہر گز نہ کھائواور حدیث شریف پر اس طرح عمل ہو گا کہ اگر کوئی مسلمان بھول کر بوقت ذبح بسم اللہ چھوڑ دے تو اس وقت کو کھالو، کیونکہ ہر مسلمان کے دل میں اللہ کا نام ہوتاہے۔

اسی طرح وضو کے حکم میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’لاوضوء لمن لم یسمّ اللہ‘ ’اس شخص کا وضو نہیں ہو گا جس نے بسم اللہ نہیں کہا۔‘ اب سوال یہ ہے کیا بسم اللہ نہ پڑھنے کی وجہ سے ہمارا وضو ہو گا یا نہیں؟ امام اعظم فرماتے ہیں حدیث اپنی صحت کے اعتبار سے کمزورہے، اسی لئے وضو کے وقت بسم اللہ کا پڑھنا سنت ہے نہ کہ فرض، اگر کوئی بھول کر یا جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دے تو اس کا وضو ہو جائے گا۔

اسی طرح نماز کے حکم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پانچ وقت کی نماز ان کے مقررہ اوقات میں فرض کی ہے، جیسا کہ ان الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا (سورہ نساء)بے شک نماز مومنین پر (اپنے) وقت پر فرض ہے۔ اور بخاری شریف میں ہے: ’حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول پاک ﷺ کو دیکھا ہے اگر آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو آپ مغرب کو مؤخر کرتے اور عشاء جلدی پڑھتے‘ یعنی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے۔ قرآن کریم میں وقت ہونے پر ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا یعنی ظہر کو ظہر کے وقت عصر کو عصر کے وقت مغرب کو مغرب کے وقت اور حدیث شریف میں ہے کہ مغرب و عشاء رسول کریم ﷺ ملا کر پڑھے ہیں۔

ان میں تطبیق کس طرح ہوگی؟کیا کوئی عام آدمی ان میں تطبیق دے سکتا ہے؟ امام اعظم فرماتے ہیں ہر نماز اپنی وقت پر ہی فرض ہے، اگر کوئی شخص وقت سے پہلے نماز ادا کرتا ہے تو اس کی نماز ہر گز نہیں ہو گی، حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ رسول اعظم ﷺ نے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کو آخری وقت (اپنے ہی وقت میں ) ادا کیا اور عشاء کو ابتدائی وقت میں ادا کیا، اس کو جمع صوری کہتے ہیں، اس طرح کے مسائل قرآن و احادیث شریفہ میںہزار ہا ہیں، عام آدمی یا عالم یا مفتی قرآن و احادیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتے، اسی لئے ائمہ مجتہدین کی اقتداء کے سواء کوئی چارہ ہی نہیں۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے قرآن و احادیث شریفہ سے (۸۳۰۰۰) تراسی ہزار مسائل کا استنباط و استخراج کیا ہے، امام شافعی فرماتے ہیں: الناس عیال في الفقہ علی ابي حنیفۃ (سارے لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں)

آپ نہایت ذہین ‘ متقی و پرہیزگار تھے، جیسا کہ آپ کے احوال میں لکھا گیا ہے :خلیفہ منصور نے حضرت امام اعظم ؓکو بلا کر کہا آپ عہدہ قضا قبول کرلیں۔ اور میری مملکت کے آپ قاضی القضاۃیعنی چیف جسٹس بن جائیں۔ حضرت امام اعظم نے فرمایا۔ میں اس عہدہ کے قابل نہیں ہوں۔ خلیفہ نے کہا۔آپ جھوٹ کہتے ہیں۔آپ سے زیادہ اس عہدہ کے اور کون قابل ہوگا۔ آپ نے فرمایا اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو آپ نے خود ہی فیصلہ کردیا کہ میں جج بننے کے قابل نہیں ہوں اس لئے کہ جھوٹا آدمی جج نہیں بن سکتا یہ کہہ کر آپ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ (تذکرۃالاولیاء)

آپ قوم کی اصلاح بڑی حکمت ودانائی سے فرماتے تھے چنانچہ: آپ کے زمانے میں ایک شخص امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑی دشمنی رکھتا تھا۔حتیٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (معاذ اللہ )یہودی کہتا تھا۔حضرت امام صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اسے بلایا۔ اور اس سے فرمایا کہ میں نے تمہاری لڑکی کے لئے ایک مناسب رشتہ تلاش کیا ہے۔ لڑکے میں ہر قسم کی خوبی موجود ہے۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ وہ لڑکا یہودی ہے۔اس شخص نے جواب دیا۔کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ اتنے بڑے امام ہوکر ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک یہودی سے جائز سمجھتے ہیں۔ میں توہر گز اس نکاح کو جائز نہیں سمجھتا۔ حضرت امام نے فرمایا سبحان اللہ !تمہارے جائزنہ سمجھنے سے ایسا ہے۔جب کہ خود حضور سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح ایک یہودی سے کردیا تھا۔وہ شخص فوراََ سمجھ گیا کہ حضرت امام کس بات کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں چنانچہ اس وقت اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پاک کے متعلق خیال باطل سے توبہ کی۔اور حـضرت امام اعظم کی برکتوں سے مالا مال ہوگیا۔ (تذکرۃ الاولیاء)

قاضی ابن ابی یعلیٰؒ کی عدالت میں ایک شخص نے درخواست دی کہ میں اپنی دیوار میں ایک روشندان بنانا چاہتا ہوں۔لیکن میرا پڑوسی مجھے روکتا ہے۔ پڑوسی کو بلا کر قاضی صاحب نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کچھ ایسی وجوہات پیش کیں جن کی بناء پر قاضی صاحب نے روشندان بنانے کی اجازت نہ دی۔اور فیصلہ مدعا علیہ کے حق میں دے دیا۔

حضرت امام اعظم کو جب یہ خبر ہوئی تو آپ نے اس آدمی سے فرمایا کہ اب تم اپنی دیوار گرانے کی درخواست کرو۔ اور جس دیوار میں روشندان بنانا چاہتے ہو۔ اسی کو گرادو، اس شخص نے یہی درخواست دی، چونکہ ہر شخص کو اپنی دیوار گرانے کا حق ہے، اس لئے قاضی صاحب نے دیوار گرانے کی اجازت دے دی، اس شخص نے اس اجازت کے بعد دیوار گرانے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کو سن کر پڑوسی گھبرایا ہوا قاضی صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ جناب اب تو وہ دیوار گرارہا ہے، اس لئے اسے روشندان بنانے کی اجازت دے دیجئے کہ میرے لئے یہ دیوار گرانے کے مقابل زیادہ آسان ہے، قاضی صاحب سمجھ گئے اور خوشی سے روشندان بنانے کی اجازت دے دی۔ (جواہر البیان)

آپ کی تعلیم وتربیت کوفہ میں ہوئی آپ نے بچپن میں ہی حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی، صرف ونحو ادب عربی، علم عروض اور علم قراء ات میں کمال حاصل کیا آپ کے عربی قصائد سے یہ بات واضح ہے، جو حضرات آپ کے عربی ادب کے بارے میںکلام کرتے ہیں دراصل یہ ان کے اپنے قصورِ علمی کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد آپ نے علوم شریعت کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے آپ نے علمِ کلام (علمِ عقیدہ) کی تحصیل فرمائی پھر علوم عالیہ تفسیر، حدیث فقہ میں کمال حاصل کیا اور مجتہدِ مطلق کے مرتبہ پر پہنچے۔

آپ ہی نے سب سے پہلے اُصول فقہ مدوّن فرمائے (مقدمہ اصول السرخسي للفقیہ أبي الوفاء الافغانی) اور حدیث شریف کی روایت اور درایت کے اصول قائم کئے۔ آپ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مدرسہ سے خوب استفادہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ فرمایا تھا۔ آپ نے وہاں تعلیمی حلقہ قائم کیا تھا، آپ کے بعد علقمہ بن قیس نخعی ؒ نے اس سلسلہ کو جاری رکھا، ۶۲ھ میں علقمہ نخعی کے انتقال کے بعد ابراہیم نخعیؒ (۹۲ھ)ان کے جانشین ہوئے۔ ان کے بعد جماد بن ابی سلیمان ؒ ۱۲۰ھ تک درس دیتے رہے اور ان کے بعد امام اعظم ابو حنیفہ ؓ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قائم کر د ہ اس مسند ِ ارشاد پر فائز ہوئے۔

امام اعظم ابو حنیفہ ؓ تابعی ہیں اور یہ آپ کیلئے ایسا فضل وشرف ہے جو ائمہ اربعہ ، اصحابِ صحاح ستہ میں سوائے آپ کے کسی اور کو نہیں ملا۔ آپ نے متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور ان میں چھ ۶ صحابہؓ سے حدیثیں بھی لیں۔ ان میں ایک صحابیہ ہیں ان چھ صحابہ کے نام یہ ہیں:سیدنا انس بن مالکؓ، سیدنا عبداللہ بن اُنیس، سیدنا عبد اللہ بن حارث، سیدنا واثلہ بن اسقع، سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ، سیدتنا عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہم۔ امام اعظم ابو حنیفہ صاحب مسانید صحیح ہیں امام عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں لکھتے ہیں: اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا اس طرح سے کہ امام ابو حنیفہ کی تین مسانید کے مطالعہ کی مجھے توفیق بخشی آپ پرہیز گار اور معتبر تابعین ہی سے روایت کرتے ہیں اور پھر زمانہ خیر القرون کے ہیں جس کی رسول اللہ ﷺ نے گواہی دی ہے جیسے اسود، علقمہ، عطاء، مجاھد، مکحول حسن بصری اور عکرمہ وغیرہ۔

امام اعظم ؒ کے جملہ (۲۱) مسانید ہیں: محدثین کرام نے امام اعظمؒ کی مرویات کو مسند ابی حنیفہ کے نام سے جمع کیا، ان مسانید کو جمع کرنے والوں میں بعض وہ بھی ہیں جو شروع میں امام صاحب کے مخالف تھے، بعد میں جب امام اعظم ؒ کی جلالتِ شان کا اندازہ ہوا تو تائب ہوئے اور تلافی کے طور پر امام اعظم ؒ کی مرویات کو مسند ابی حنیفہ کے نام سے جمع کئے، جس کو علاء الدین ابن خسرو نے جامع المسانید للامام الاعظمؒ کے نام سے جمع کر دیا ہے، امام اعظمؒ کے مسانید جمع کرنے والوں میں مذکورہ چار بزرگوں امام محمد امام ابو یوسف، امام زفر، امام حسن بن زیاد لؤلؤی وغیرہ۔ قاضی ابوبکر محمد بن عبدالباقی انصاری، ابن ابی العوام سعدی، ابن خسرو بلخی وغیرہ شامل ہیں، پھر قاضی القضاۃ ابو المؤید محمود خوارزمیؒ نے ان میں سے اکثر مسانید کو ایک ضخیم کتاب میں جامع المسانید کے نام سے جمع کر دیا۔ اس کتاب کے مقدمہ میں ان تمام بزرگوں کے نام بھی لکھ دئے گئے ہیں جنہوں نے ان (۱۷) مسانید کو جمع کیا ہے۔

اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ الحمد للہ ہماری جامعہ (جامعہ نظامیہ حیدر آباد) کے کتب خانہ میں بھی موجود ہے۔ (ثروۃالقاری) ونیز جامع مسانید الامام الاعظم عالمی شہرت یافتہ تحقیقی ادارہ دائرۃ المعارف سے تین جلدوں میں محقق چھپ چکی ہے جس پر بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے تحقیق وتعلیق کا کام حضرت مولانا ابوبکر محمد الہاشمی صاحب ؒ سابق صدر مصحح دائرۃ المعارف نے انجام دیا ہے ونیز کتاب کے آغاز میں مشہور حنفی عالم دین مولانا لطیف الرحمن بہرائچی صاحب کا مبسوط مقدمہ بھی شامل ہے۔ آپ کا وصال ۲؍ شعبان المعظم ؍۱۵۰ھ میں ہوا، آپ نے ستر سال کی عمر پائی۔ اللہ آپ کی مرقد پر رحمتوں کا نزول فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *