[]
اڈولف ہٹلر کے خلاف کسی بھی دوسرے مزاحمتی اقدام کا اتنا شدید اثر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو، جتنا کلاؤس شَینک گراف فان شٹاؤفن برگ کے ذریعے نازی رہنما کے قتل کی کوشش کا۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک جرمن رائش کے انتہائی مشرقی صوبے کا حصہ رہنے والے مشرقی پروشیا میں فوجی ہیڈکوارٹر کے کانفرنس روم میں 20 جولائی 1944 کو دن کے 12بج کر 42 منٹ پر ایک بم پھٹا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اڈولف ہٹلر کو مارنے کے لیے تھا اور جسے ایک جرمن آرمی افسر کلاؤس شَینک گراف فان شٹاؤفن برگ نے نصب کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ایک سابق قوم پرست سوشلسٹ کے طور پر شٹاؤفن برگ کو ڈکٹیٹر ہٹلر کو قتل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس واقعے سے چند دن قبل اس فوجی افسر نے اپنے معتمد ساتھیوں سے کہا تھا، ”اب اسے (ہٹلر کو) قتل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔‘‘
شٹاؤفن برگ صرف قاتل ہی نہیں تھا بلکہ قدامت پسند حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر بغاوت کی کوشش کا سب سے اہم منتظم بھی تھا، جس میں اعلیٰ فوجی، سفارتی اور انتظامی اہلکار بھی شامل تھے۔
20 جولائی 1944 کو ٹائم بم پھٹنے سے کچھ دیر پہلے ہی اس افسر نے اپنی بیرک چھوڑ دی تھی۔ وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ ‘فیوہرر‘ (لیڈر) ہلاک ہوچکا ہو گا۔ شٹاؤفن برگ ایک فوجی طیارے میں برلن روانہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف جرمن دارالحکومت برلن میں ‘آپریشن والکیری‘ جاری تھا۔ دراصل ایک ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے ایک فوجی منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ سازشی، جو نازی ریاست کے پورے نظام میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے، اپنی بغاوت کے لیے والکیری کو دوبارہ استعمال کرنا چاہتے تھے۔
قسمت نے ساتھ نہ دیا
اس حملے میں لیکن ہٹلر کو صرف معمولی زخم آئے۔ بلوط کی بھاری میز اور گرم موسم کی وجہ سے بیرک کی کھلی ہوئی بڑی بڑی کھڑکیوں نے دھماکے کی شدت کو کم کر دیا تھا۔ تاہم اگر ‘آپریشن والکیری‘ میں شامل ہر شخص نے اسے پوری ایمانداری سے انجام دیا ہوتا، تو اتھل پتھل کرنے کا موقع پھر بھی کسی حد تک موجود تھا۔ لیکن تاخیر، بریک ڈاؤن اور ناکافی منصوبہ بندی آڑے آ گئیں۔ اس کے علاوہ ممکنہ طور پر راز فاش ہوجانے کا دباؤ اور منصوبے میں شامل کچھ افراد کی غیر فعالیت حتیٰ کہ پالا بدل لینے کی وجہ سے سارا کھیل ہی بگڑ گیا۔
بغاوت کی یہ کوشش شام ہوتے ہوتے ناکام ہو چکی تھی۔ ہٹلر نے ریڈیو پر عوام سے خطا ب کیا اور اس ‘مشیت‘ کا ذکر کیا جس نے اسے بچا لیا تھا۔ شٹاؤفن برگ اور سازش میں شامل اس کے متعدد ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور رات کو ہی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کچھ دیگر لوگوں کا پتہ بعد میں چلا اور اس سازش میں شامل ہونے کے جرم میں مجموعی طورپر تقریباً 200 افراد ہلاک کر دیے گئے۔
مؤرخ وولفگانگ بینز کا خیال ہے، ”ناکامی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے مشہور فوجی رہنماؤں، مثلا ًجنرل اَیروِن رومیل، میں سے کسی نے بھی اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کے مطابق ان میں سے کم از کم ایک کا تو اس سازش کا سربراہ ہونا ضروری تھا تاکہ لوگ یہ کہہ پاتے کہ ہاں، رومیل بھی یہی سمجھتے تھے کہ ہٹلر ایک مجرم ہے۔‘‘
ایک پائیدار علامت
اپنی ناکامی کے باوجود 20 جولائی 1944 کا یہ واقعہ ہٹلر کے خلاف مزاحمت کی ایک مضبوط علامت بن گیا۔ شٹاؤفن برگ کے ساتھ سازش میں شریک ہیننگ فان ٹریسکوو نے چند روز قبل کہا تھا، ”کامیابی اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اہم بات یہ تھی کہ جرمن مزاحمتی تحریک نے دنیا کے سامنے اور تاریخ کے سامنے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی جرأت کی تھی۔‘‘
مزاحمت کی دیگر کارروائیاں بھی ہوئیں، مثلاً ایک بڑھئی گیورگ ایلزر کے ذریعے 1939میں میونخ کے بیئر ہال میں گھریلو ساختہ بم کا استعمال کرتے ہوئے ہٹلر کو مارنے کی کوشش یا پھر وائٹ روز نامی نوجوانوں کے ایک گروپ کے ذریعے کتابچے تقسیم کرنے کی مہم۔ لیکن وولفگانگ بینز کے مطابق 20 جولائی 1944کے واقعے نے ان کی اہمیت کو ماند کر دیا تھا۔
‘ہولوکاسٹ میں کوئی دلچسپی نہیں‘
آپریشن والکیری اور قاتلانہ حملے کی یاد وقت کے ساتھ ساتھ مدھم پڑ گئی۔ جنگ ختم ہونے کے ایک طویل عرصے بعد تک اس آپریشن کا آغاز کرنے والوں کو غدار سمجھا جاتا رہا۔ مثال کے طور پر شٹاؤفن برگ کی بیوہ نے بیواؤں کو ملنے والی پینشن لینے سے ابتدا میں انکار کر دیا تھا۔ بعد میں اس سازش میں شامل لوگوں کو باضابطہ ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ سڑکوں، اسکولوں اور بیرکوں کو ان کے ناموں سے منسوب کیا گیا اور عوامی عمارتوں کو ہر سال 20 جولائی کو پرچموں سے سجایا جاتا رہا۔ جرمن مسلح افواج میں شامل ہونے والے نئے جوانوں سے اسی حملے کی برسی کے دن حلف لیا جاتا۔
لیکن سازش میں ملوث افراد پر ہمیشہ تنقید بھی ہوتی رہی۔ شٹاؤفن برگ کے سوانح نگار ٹوماس کارلاؤف کہتے ہیں کہ اس گروپ نے پہلی بار سن 1944 کے یورپی موسم گرما میں نارمنڈی میں اتحادی افواج کے اترنے کے فوراً بعد کارروائی کی۔ 1940میں پولینڈ اور فرانس پر جرمنی کی تیز ترین فوجی فتوحات سے شٹاؤفن برگ کافی پرجوش تھے۔ لیکن اتنے کم وقت میں آخر کون سی تبدیلی آ گئی تھی۔
بینز کا خیال ہے کہ فوجی مزاحمت میں حصہ لینے والے افراد نے ریفارمیشن کا ایک بہت طویل راستہ اختیار کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ”ہولوکاسٹ سے انہیں بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ ممکنہ فوجی شکست کے مدنظر وہ چاہتے تھے کہ بغاوت شروع کر کے جرمنی کے لیے جو کچھ بچایا جا سکتا ہے، اسے بچا نے کی کوشش کی جانا چاہیے۔‘‘
شٹاؤفن برگ جمہوریت پسند؟
شٹاؤفن برگ کے ہم عصر مؤرخ یوہانس ہیورٹر کا خیال ہے کہ شٹاؤفن برگ کوئی جمہوریت پسند شخص نہیں تھے۔ اگر ہٹلر کے قتل کی کوشش کامیاب ہو جاتی، تو ان کے اپنے ذہن میں بھی جرمنی کے لیے ایک آمرانہ طرز حکومت ہی تھا۔ وولفگانگ بینز تاہم اس سے قدرے نرم تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”کسی بھی حالت میں جرمنی ایک آئینی ریاست بن جاتا۔ لیکن جمہوریت، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، بنیاد ی آئینی قانون کے ذریعے قائم کی جاتی ہے اور 20 جولائی کے منصوبہ سازوں کی نگاہ میں یہ بات تو بالکل نہیں تھی۔‘‘
آج بہت سے جرمن 20 جولائی 1944کے واقعے کو اس وقت یاد کرتے ہیں، جب قوم پسندانہ سوشلزم کے خلاف مزاحمت کی بات کی جاتی ہے۔ ایسے میں سب سے پہلا چہرہ جو ایسے لوگوں کے سامنے آتا ہے، وہ کلاؤس شَینک گراف فان شٹاؤفن برگ ہی کا ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے ہیرو بھی تھے، جنہوں نے نازی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان میں یہودی، کمیونسٹ، چرچ سے تعلق رکھنے والے اور فنکار بھی شامل ہیں۔ یقیناً ایسے بہت سے لوگ بھی تھے، جنہوں نے20 جولائی کے حملہ آوروں کے برعکس ہٹلر کے خلاف خاموشی سے مزاحمت کی تھی، لیکن ایسے افراد تو کہیں وقت کی دھول میں گم ہو چکے۔