[]
اوٹاوا: کینیڈا کے امیگریشن کے وزیر مارک ملر نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ کینیڈا جنگ زدہ غزہ میں کینیڈین باشندوں کے توسیع شدہ خاندانوں کو تین سال تک کے لیے اپنے ملک لے جائے گا۔
العربیہ کےمطابق یہ اقدام جو 9 جنوری سے نافذ العمل ہو گا، کینیڈا کے باشندوں کو میاں بیوی یا ساتھ رہنے والے جوڑوں، عمر سے ماورا بچوں اور پوتے پوتیوں/نواسے نواسیوں، بہن بھائیوں اور ان کے قریبی خاندانوں کے ساتھ ساتھ والدین اور دادا دادی/نانا نانی کے ساتھ دوبارہ ملنے کی اجازت دے گا۔
ملر نے کہا پالیسی میں تبدیلی کا مقصد “لوگوں کو محفوظ کرنا” ہے کیونکہ انسانی بحران نے غزہ کو “ناقابلِ رہائش” بنا دیا ہے۔
حکومت نے قبل ازیں غزہ سے 600 سے زائد کینیڈین باشندوں، ان کے شریکِ حیات اور بچوں کو نکالنے پر توجہ مرکوز کی تھی۔
ملر نے اندازہ لگایا کہ غزہ میں لڑائی جاری رہنے کے دوران کینیڈا میں مزید سینکڑوں افراد کو دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے البتہ ایک نیوز کانفرنس میں زور دیا کہ “غزہ سے نکلنا انتہائی مشکل ہے اور ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔”
انہوں نے خبردار کیا، “یہ ایسے حالات ہیں جو ہمارے قابو میں نہیں ہیں” اور “منظرناموں کا ایک مکمل مرحلہ ہے جہاں چیزیں ممکنہ طور پر غلط طرف جا سکتی ہیں۔”
ملر نے کہا کہ انہوں نے امیگریشن حکام کو فلسطینیوں کے لیے مستقل رہائش کی درخواستوں کو ترجیح دینے کا بھی حکم دیا۔
کینیڈا کے لیے پروازوں میں سوار ہونے کی اجازت ملنے سے قبل نو آموز افراد کو قاہرہ میں بائیو میٹرکس سکریننگ سمیت دستاویزات اور سیکیورٹی چیک کی ضرورت ہوگی۔
کینیڈین مسلمانوں کی قومی کونسل کے ساتھ اوٹاوا میں ایک الگ نیوز کانفرنس کو احمد القادی نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں غزہ سے فرار ہونے والے کئی کینیڈین باشندوں کو “والدین اور بہن بھائیوں کو جنگ زدہ علاقے میں چھوڑ جانے کا ایک ناممکن فیصلہ کرنا پڑا کیونکہ ان کے پاس شہریت نہیں ہے۔”
انہوں نے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ وہ کینیڈین باشندوں کے توسیع شدہ خاندانوں کے لیے اہلیت کے معیار کو وسعت دیں۔
غزہ میں تباہ کن جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا جس میں تقریباً 250 افراد یرغمال بنائے گئے اور تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہو گئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
غزہ کی حماس حکومت کے مطابق اسرائیل کی جوابی بمباری اور زمینی حملے میں کم از کم 20,000 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اس خطے میں آٹھ کینیڈین شہری اور کینیڈا سے گہرا تعلق رکھنے والا ایک شخص ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک اور لاپتہ ہے۔