[]
تل ابیب: اسرائیلی پولیس کے اہلکاروں سے فلسطینی قیدی کی جیل میں تشدد سے ہلاکت کے بعد پوچھ گچھ کی گئی ہے، تاہم ان پر علامتی نوعیت کی پابندی کے ساتھ انہیں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ان پولیس اہلکاروں پر تشدد کا الزام لگایا تھا۔
العربیہ کے مطابق 38سالہ طاہر ابو عصب نامی فلسطینی کا مغربی کنارے کے علاقے قلقلیہ سے تعلق تھا۔ اسے جیل میں قید کے دوران پچھلے ماہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس ترجمان کے مطابق اس ماہ تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
تاہم اس تفتیشی عمل کے بعد پولیس کے تمام اہلکاروں کو بعض شرائط کی پابندیوں کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا۔ البتہ تحقیقات ابھی جاری رکھنے کا بتایا گیا ہے۔
لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں دوبارہ تحقیقات کے لیے کب بلایا جائے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی پولیس سے ‘اے ایف پی ‘ کے نمائندے نے معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا تو اس پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ 38 سالہ ابو اسد کا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جماعت فتح موومنٹ سے تعلق تھا اور اسے اسرائیلی عدالت نے 25 سال قید کی سزا سنا رکھی تھی لیکن ایک روز تشدد سے اسے جیل پولیس اہلکاروں نے ہلاک کر دیا۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد سے موت ثابت نہیں ہونے دی گئی۔ مگر انسداد تشدد کے لیے قائم پبلک کمیٹی نے اس بارے میں کہا تھا کہ سنگین شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ اسرائیلی جیلوں کے محکمے کو اسرائیل نے عقوبت خانے میں بدل دیا ہے۔
پبلک کمیٹی کے مطابق اس واقعے سے پہلے بھی چھ فلسطینی قیدی جیل میں اسی طرح تشدد سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان چھ قیدیوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا اسرائیلی پولیس اہلکاروں نے نشانہ بنایا تھا۔ اس لیے پبلک کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ تحقیقات میں تشدد اور ہلاکت کے سارے پہلووں کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب اسرائیلی کابینہ کے سب سے زیادہ انتہا پسند مانے جانے والے وزیروں میں سے ایک بین گویر کا کہنا ہے کہ جب تک پولیس اہلکاروں کا جرم ثابت نہ ہو جائے انہیں معصوم ہی سمجھا جانا چاہیے اور کسی بھی قسم کی سزا کا رویہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے۔
ادھر اسرائیلی حکام کے فلسطینی قیدیوں کے بارے میں تعصب کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ‘ ہیوم ‘ کو بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی پولیس اہلکار ‘ انسانی گندگی’ اور قاتلوں سے نمٹ رہے ہیں۔
واضح رہے سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی جیلوں میں 7800 کے قریب قید فلسطینی مزید سختیوں اور پابندیوں کی زد میں آچکے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی جیل میں رشتہ داروں سے ملاقاتیں بھی روکی جاچکی ہیں۔