خطہ جنگ بندی کی طرف بڑھ رہا ہے، ایرانی وزیر خارجہ

[]

 مہر خبررساں ایجنسی کے نمائندے کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اپنے دورہ قطر کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آج اور کل رات ہونے والی بات چیت میں ہماری دلچسپی کے موضوعات میں سے ایک مسئلہ فلسطین، غزہ کے خلاف جرائم کی روک تھام اور وہاں انسانی امداد بھیجنا تھا۔

انہوں نے کہا: سفارتی مکالموں کی مجموعی صورت حال یہ ظاہر کرتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطہ جنگ بندی کی طرف بڑھ رہا ہے اور بالواسطہ اور بالواسطہ بات چیت سے غزہ کی اس تباہ کن صورتحال کو ختم کیا جا سکتا ہے یا کم از کم فلسطینی عوام خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں کے مصائب کو کم کیا جا سکتا ہے 

انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک یعنی آنے والے دنوں میں ایک معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی رجیم اب بھی اپنے وحشیانہ جنگی طریقوں، جرائم کے تسلسل اور غزہ کے محاصرے پر اصرار کرتی ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ بلاشبہ حماس کے حکام جو کہ فلسطینی قوم اور غزہ کے باشندوں کی جانب سے اس معاملے کے اہم فریق ہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غزہ کی پٹی جنگ کے جاری رہتے ہوئے کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہے۔ اگر امریکہ اور دیگر فریق سنجیدہ ہیں تو انہیں ایک پائیدار جنگ بندی کے حصول کے لیے ایک قسم کی جنگ بندی کے بعد بات چیت کرنی چاہیے۔ اور غزہ کا انسانی محاصرہ ختم کرنا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت کا ایک حصہ حماس کے حکام اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ تھا۔ میں نے جناب “اسماعیل ہنیہ” سے سنا ہے کہ غزہ میں جتنے بھی تلخ مناظر ہم دیکھ رہے ہیں اس کے باوجود مزاحمت کی صرف 14 فیصد تک دفاعی تنصیبات اور افرادی قوت جنگ میں شامل رہی ہے۔ جب کہ انہوں نے غزہ کی اس غیر مساوی جنگ میں کئی مہینوں سے غزہ کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے قطری ہم منصب کے ساتھ ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ ان سیاسی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جو میز پر ہیں جن کی تفصیلات کا اعلان وقت پر کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور سیاحتی تعاون کے بارے میں بات کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: تہران اور دوحہ کے بعض مسائل دونوں ممالک کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد حل ہو گئے ہیں اور اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ معاملات میں ہمیں اب بھی دونوں ممالک کے سفارت خانوں کی طرف سے مزید فالو اپ کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے سفیر ان مسائل پر سرگرمی سے پیروی کر رہے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *