وقف جائیدادوں پرقبضوں کی تحقیقات لازمی: حافظ پیر شبیراحمد

[]

حیدرآباد: صدرجمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمدنے ریاست تلنگانہ میں بڑے پیمانہ پر اوقافی املاک کی لوٹ کھسوٹ پر شدید غم و ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ برسہا برس سے یہ مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں‘ لیکن کس سے فریاد کی جارہی تھی؟ جو لوگ لوٹ کھسوٹ کی نگرانی کررہے تھے یا جن کی ہدایت پر یہ سب غیر قانونی کام ہورہے تھے؟

صدر جمعیت نے کہا کہ لاکھوں کروڑوں روپئے کی جائیدادیں نا جائز طور پر غیر مستحق افراد و اداروں کو جن کا بر سر اقتدار لوگوں سے رشتہ یا تعلق تھا دے دی گئیں۔ ان تمام امور کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ 10 سال میں کن کن افراد و اداروں کو وقف جائیدادیں الاٹ کی گئیں اور کیوں کی گئیں؟

شہر میں واقع بیش قیمت اراضیات کو بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا تھا‘ جس سے وقف کو آمدنی بھی ہوتی اور منشائے وقف کی بھی بہترین انداز میں تکمیل بھی ہوسکتی تھی۔ لیکن بورڈ پر ایسے افراد کو گدی نشین بنا کر بٹھایا گیا جن کی سب سے بڑی قابلیت یہی تھی کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم و ہدایت کے آگے سوائے سر اور آنکھیں جھکا کر بات سننے کے سوا نہ کچھ اور کر سکتے تھے نہ کچھ کہہ سکتے تھے۔

اب جبکہ حکومت بدل چکی ہے تو بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اب تک جو ظلم و نانصافی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ ناجائز طور پر جو املاک الاٹ ہوئی ہیں ان تمام کو منسوخ اور کالعدم کیا جائے گا اور جو عہدیدار اس کے ذمہ دار ہیں،ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بنڈلہ گوڑہ میں نوری شاہ ؒ کے علاقہ میں ڈیری فارم کے لئے ساڑھے چار ایکڑ زمین الاٹ کرنا کیا منشائے وقف کے مطابق ہے؟ یہ زمین کس کی ہدایت پر اور کیوں الاٹ کی گئی؟ اس بات کی وقف بورڈ کو وضاحت کرنی چاہئے۔

اس کے علاوہ شہر اور اضلاع میں سیاسی اثر کے تحت کئی اراضیات کو این او سی بھی جاری کیا گیا ہے۔ بورڈ سے انفارمیشن ایکٹ کے تحت یہ تمام تفصیلات طلب کی جائیں گی‘ جس کے بعد اوقافی املاک کی بازیابی اور صیانت کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔

اس کے علاوہ جمعیت خاطی قائدین اور عہدیداروں کے خلاف سیاسی‘ انتظامی اور عدالتی سطح پر جو بھی مناسب ہو وہ کارروائی کرے گی۔ جمعیت کا مقصد یہ ہے کہ ان املاک کا زمانہ کے تقاضوں کے مطابق صحیح استعمال ہو اور اس سے ملت کی سماجی‘ تعلیمی اور معاشی ترقی کے منصوبے تیار کرکے ان کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ اگر ان جائیدادوں کا صحیح استعمال ہو تو مسلمان حکومت کی مدد یا فلاحی اسکیمات کے محتاج بھی نہیں رہیں گے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *