[]
حیدرآباد : صحافیوں کی تنظیم جرنلسٹس فار جسٹس نے ریاست تلنگانہ میں عوام خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ کی گئی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوے تلنگانہ کے نئے چیف منسٹر شری ریونت ریڈی کے سامنے سر دست تلنگانہ میں بڑے پیمانہ پر اوقافی جائیدادوں کی سودے بازی کا مسئلہ پیش کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
سینیئر جرنلسٹ جناب شوکت علی خان نے ریاست میں عوام خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے صحافیوں کا ایک فورم تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
بحیثیت کنوینر جے ایف جے انہوں نے چیف منسٹر سے ریاستی وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو فوری اثر کے ساتھ کھولنے پر زور دیتے ہوئے اس کو مہر بند کرنے کے معاملہ کی ہائی کورٹ کے کار گزار جج کے ذریعہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ بورڈ میں بعض دھاندلیوں کا الزام لگاتے ہوئے فبروری 2017میں اس وقت کے چیف منسٹر شری کے چندر شیکھر راؤ کے حکم پر ریکارڈ روم کو مہر بند کرتے ہوئے وہاں پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ اس بات کو ساڑھ چھ سال گزر چکے ہیں۔
اب تک کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور اس مدت میں لاکھوں کروڑ روپئے کی اوقافی جائیدادوں کی سودا بازی کرلی گئی۔ یہ شاید دنیا کا پہلا واقعہ ہے جس میں بد عنوانیوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے‘ انہیں معطل کرنے یا مناسب سزا دینے کے بجائے بورڈ کے ریکارڈ روم کو ہی مہر بند کردیا گیا‘ جبکہ مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ اوقافی جائیدادوں کی لوٹ مار کی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
اگر چیف منسٹر نے محسوس کیا تھا کہ بورڈ میں اتنی سنگین دھاندلیاں ہوئی تھیں تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ بورڈ کو تحلیل کردیتی‘ صدر نشین اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ دائر کرتے اور سارے معاملہ کی کسی جج یا سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کرواتے۔ لیکن نہیں معلوم کس قانون کے تحت حکومت نے یہ کارروائی کی۔
اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی زمینات سے وقف بورڈ کو اور مسلمانوں کو محروم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ یگر مقامات پر وقف اراضیات پر ناجائز قبضوں کی راہ ہموار کی جائے۔ نہیں معلوم چھ سال سے زائد کی مدت میں اس ریکارڈ کا کیا حال ہوا۔ ایک ایسے دور میں جب کہ ہر محکمہ کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا جارہا ہے‘ وقف بورڈ کے ریکارڈ کو عمداً تباہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سارے معاملہ کی ہائی کورٹ کے برسر خدمت جج سے تحقیقات کروائی جائیں اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ بورڈ کے ریکارڈ کو مہر بند کرنے کی مدت میں عدالتوں سے جتنے بھی فیصلے ہوئے ہیں ان کو کالعدم کرنے کے لئے قانونی کارروائی کی جائے۔
کیونکہ اس مدت میں بورڈ عدالتوں میں کوئی ریکارڈ پیش کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھا۔ حکومت کے جس عہدیدار نے مہر بند کرنے کے احکام جاری کئے تھے اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے کہ اس نے کس قانون کی کس دفعہ کے تحت اس ریکارڈ کو مہر بند کیا تھا۔
اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے کہ ریکارڈ کو مہر بند کرنے کی کوئی مدت بھی قانون میں مقرر ہے یا نہیں؟ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے کہ جن دھاندلیوں کو بہانہ بنا کر ریکارڈ روم کو مہر بند کیا گیا تھا تو اس وقت کے چیر مین اور بورڈ کے خلاف دھاندلیوں کے لئے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے بورڈ کے صدر نشین نے اس ریکارڈ روم کو کھلوانے کیلئے کوئی کوشش کیوں نہیں کی۔ ان کے خلاف بھی کارروائی کی گنجائش تلاش کی جائے۔موجودہ بورڈ کے تعلق سے بھی جو شکایات ہیں ان کو بھی تحقیقات کے دائرہ میں لایا جائے۔
اس تعلق سے بہت جلد ایک تفصیلی یادداشت چیف منسٹر شری اے ریونت ریڈی کے علاوہ اسمبلی و کونسل کے تمام ارکان کو پیش کی جائے گی۔
سابق حکومتوں نے لاکھوں کروڑ روپئے کی اوقافی جائیدادوں سے مسلمانوں کو محروم کرتے ہوئے صرف دو چار ہزار کروڑ روپئے کے فنڈز اقلیتی بہبود کی اسکیموں کے نام پر جاری کرتے ہوئے ان کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وقف جائیدادوں کا مناسب استعمال ہو تو مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے حکومت سے کسی قسم کی اسکیم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔