اے پی میں 2 کمسن طلبہ نے کیسے9 سالہ طالبعلم کا اغوا وقتل کیا؟

[]

وجئے واڑہ: پڑوسی تلگوریاست کے ضلع ایلورو میں قبائلی بہبود کے ایک اقامتی اسکول کے ایک9سالہ طالب علم کو اسی اسکول کے 2طلبہ کی جانب سے نصف شب کو بعد اغوا وقتل کرنے کی سنسنی واردات نے حالیہ دنوں آندھرا پردیش کو حیرت ورطہ میں ڈال دیا تھا۔

اغوا وقتل کے دو ملزمین نے جو ایس ایس سی کے طالب علم بتائے گئے ہیں، جماعت چہارم کے طالب علم کا نہ صرف قتل کردیا بلکہ انہوں نے مقتول کے ہاتھ میں تحریر کردہ ایک خط بھی رکھ دیا جس میں اس طرح کے مزید قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔

خط میں تحریر تھا کہ جوزندہ رہنا چاہتا ہے وہ یہاں سے چلے جائے اس لئے اب یہاں اس طرح کی وارداتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک ملزم نے مبینہ طور پر یہ خط، تلگو میں تحریر کیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ قتل سے توجہ کو منتشر کرنے کیلئے مقتول کے ہاتھ میں یہ خط رکھا گیا تھالیکن ہینڈ رائٹنگ، پولیس کیلئے ایک اہم اشارہ ثابت ہوئی، بالاآخر ملزمین کو گرفتار کرلیا گیا۔ ضلع ایلورو کے جنگل سے گھرے منڈل بٹیا گوڑم کے پلی رامنا گوڑم میں 9 سالہ گوگولا اکھیل وردھن ریڈی کے بہیمانہ قتل نے اس اقامتی اسکول کو ہلاکر رکھ دیا۔

اسکولی احاطہ میں ہاسٹل کے قریب اس لڑکے کا قتل کیا گیا۔ لڑکے کی گردن کے اطراف زخم کے نشانات پائے گئے اور اس کی دائیں آنکھ کے قریب ہلکی خراش بھی تھی۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کا یہ بیٹا، اسکول سے 5کیلو میٹر دور ایک گاؤں کا رہنے والا بتایا گیا ہے جبکہ اس کا بڑا بھائی اسی اسکول میں ششم جماعت میں زیر تعلیم ہے۔

یہ خاندان، کونڈاریڈی قبائلی طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کمسن طالب علم کا قتل اور خط کے ذریعہ مزید قتل کی دھمکی دینے سے اس اسکول میں زیر تعلیم طلبہ اور اسٹاف و انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس کیس کو حل کرنے کیلئے پولیس کی 10 ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔

آندھرا پردیش کی ڈپٹی چیف منسٹر پدیکاراجنا دورا،جن کے پاس قبائیلی بہبود کا قلمدان بھی ہے، نے اسکول کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے مقتول کے والدین کو 10لاکھ روپے کا ایکس گریشیا کا چیک حوالہ کیا تھا اور لڑکے کے والد کو کسی سرکاری محکمہ میں آوٹ سورسنگ نوکری اور امکنہ پلاٹ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

ابتداء میں پولیس کو شک تھا کہ اس قتل کی واردات میں کسی بیرونی شخض کا ہاتھ ہے۔ پولیس نے اس کیس میں پولیس نے ٹیچرس اور ملازمین پر شک شروع کیا تھا۔ پولیس تحقیقات کے دوران چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے کہ اسی اسکول کے دو طلبہ نے ہی یہ گھناونی واردات انجام دی ہے۔ دونوں ملزمین کی عمریں 15 سال بتائی گئی ہیں۔

ان دونوں کلیدی ملزمین نے ریڈی کے اغوا و قتل کی منصوبہ بندی کی۔ ماسک پہن نے ان دونوں نے نصف شب کے قریب ہاسٹل میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ دونوں میں ایک ملزم کھڑکی سے ہاسٹل کے روم میں داخل ہوا۔ اس کھڑکی کو گرل نہیں تھی۔اُس نے کمرہ میں داخل ہونے کے بعد دروازے کی کنڈی کھولی تاکہ دوسرا جو باہر منتظر ہے، اندر آسکے۔

ہاسٹل میں داخل ہونے سے قبل ان دونوں نے برقی سربراہی مسدود کردی۔ کمرہ میں داخل ہونے کے بعد ملزمین نے لڑکے کو زبردستی اپنے سا تھ لے گئے اور اسکول کیمپس میں ہاسٹل عمارت کے سامنے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ پولیس نے مقتول کے ہاتھ میں رکھے گئے خط کی تحریر کو ان دونوں طلبہ کے ہینڈ رائٹنگ سے تقابل کیا تو ان دونوں میں سے ایک ملزم کی ہینڈرائٹنگ خط کی ہینڈ رائٹنگ یکساں پائی گئی۔

اور پولیس نے شک کی بنیاد پر اس سے پوچھ تاچھ کی۔ تاہم اُس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور آخر کار ملزم نے جرم کے ارتکاب کا اعتراف کیا اور کہا کہ ایک اور لڑکے کی مدد سے اغوا وقتل کی واردات انجام دی گئی۔ ان دونوں کمسن ملزم نے اعتراف کیا کہ ذاتی مخاصمت کے سبب ہاسٹل کے ایک ساتھی کو قتل کردیا گیا۔ ضلع ایس پی ایلورو ڈی میری پرشانتی نے یہ بات بتائی۔ مقتول کے ہاتھوں میں خط رکھنے کا مقصد تحقیقات کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

ایس پی نے یہ نہیں بتایا کہ ذاتی مخاصمت کیا تھیں جو قتل کا سبب بنی تھیں تاہم یہ بتایا جارہا ہے کہ ایک ملزم نے سابق میں مقتول کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ بدفعلی کی تجویز کو 9سالہ طالب علم نے مسترد کردیا تھا جس کے بعد اصل ملزم نے اپنے ایک اور ساتھی کی مدد سے قتل کی منصوبہ بندی کی اور اسکو انجام دیا۔

اس کیس سے یہ بات منظر عام آئی ہے کہ نوجوان نہ صرف شہروں اور ٹاونس بلکہ دور افتادہ مواضعات میں بھی قتل کی وارداتیں انجام دیتے ہیں۔ پولیس عہدیداروں کے مطابق گھروں سے دور اقامتی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرانی ہوگی کہ وہ برُی عادتوں سے دور رہیں۔ اس سلسلہ میں والدین کو اہم رول ادا کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو جو اپنے گاؤں، گھروں سے دور اقامتی اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، یہ بتانا چاہئے کہ وہ برُی عادتوں کو ہر گز اختیار نہ کریں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *