صہیونی صدر کے سامنے سرخ قالین بچھانا اسلامی اور عربی ثقافت کی توہین ہے، معروف عرب مبصر

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف عرب مبصر عبدالباری عطوان رائ الیوم میں اپنے کالم میں لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ہونے والے ماحولیاتی اجلاس میں صہیونی صدر اسحاق ہرٹزوگ کی حاضری نہایت افسوسناک ہے۔

صہیونی صدر کی موجودگی میں عرب ممالک کے بادشاہوں اور حکمرانوں کی کثیر تعداد میں شرکت نہایت ہی ذلت کی بات ہے کیونکہ اس وقت صہیونی حکومت غزہ میں جارحیت کرتے ہوئے 20 ہزار فلسطینیوں کو شہید اور اس سے دوگنا زخمی کرچکی ہے جبکہ غزہ میں مکانات کی بڑی تعداد مکمل تباہ ہوچکی ہے۔

اپنے مضمون میں انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس کانفرنس میں دنیا میں آب و ہوا اور ماحول کی صورتحال پر گفتگو کی جائے گی لیکن صہیونی صدر کے لئے سرخ قالین بچھانا اور عرب امارات اور قطر کے سربراہان مملکت کی صہیونی صدر سے ملاقات غزہ میں شہید ہونے والے بچوں اور بے گناہ عوام کے خون کی توہین ہے۔ اسرائیل غزہ میں پانی، ایندھن اور غذائی اجناس کی فراہمی پر پابندی لگارہا ہے۔

عطوان نے کہا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور توانائی کے وزیرسمیت پورے وفد نے کانفرنس میں صہیونی صدر کی موجودگی پر اعتراض کرتے ہوئے شرکت سے معذوری ظاہر کی جبکہ عرب ممالک کو اس حوالے سے زیادہ ردعمل دکھانا چاہئے تھا تاہم ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ عرب ممالک سے توقع تھی کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مکمل منقطع کرتے ہوئے اپنے ملکوں میں صہیونی سفارتخانوں کو بند کریں چنانچہ بعض غیر عرب ممالک حتی کہ بولیویا، چلی، کولمبیا اور جنوبی افریقہ جیسے غیر مسلم ممالک نے کیا۔

مقاومتی تنظیموں نے صہیونی صدر کی اس کانفرنس میں شرکت کی شدید مذمت کی کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور بنیادی انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ 

دراین اثناء رائٹرز نے امریکی اعلی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ قطر نے صہیونی یرغمالیوں کی رہائی کے فورا بعد ملک میں مقیم حماس کے اعلی رہنماوں کی موجودگی کے حوالے سے نظرثانی کرنے کے بارے میں امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے۔

عہدیدار کے مطابق رواں ماہ امریکی وزیرخارجہ اور قطر کے امیر کے درمیان ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

عطوان نے مزید لکھا ہے کہ اسرائیل کے ورغلانے پر امریکہ کی طرف سے مقاومت کے خلاف جنگ سے چین اور روس کو زیادہ فائدہ ہوگا جبکہ امریکہ کو اپنی توقع کے برعکس نقصان اٹھانا پڑے گا۔

قطر حماس کے رہنماوں کو اپنے پاس پناہ دے کر خطے کے ممالک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے چنانچہ امریکہ کے دباو میں آکر حماس کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔
عرب مبصر نے لکھا ہے کہ تاریخ عرب ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسلامی و عربی ثقافت کے بارے میں تناقض گوئی کو یاد رکھے گی۔

غزہ کی جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اگرچہ غاصب صہیونیوں کی شکست کا زیادہ امکان ہے، امریکہ اور خطے میں اس کے آلہ کاروں کو رسوا کردے گی اور اس کے بعد خطے کے مفادات کے خلاف سازش کرنے والی حکومتوں کا زوال شروع ہوگا۔
 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *