علاقائی مزاحمتی گروہ ایران سے ہدایات نہیں لیتے ہیں، ایران

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پیر کو اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کنعانی نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد سے ایران نے جنگ کو روکنے، ناکہ بندی ہٹانے، غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی کی پالیسی کا مقابلہ کرنے اور فوری طور پر ساحلی علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے کا راستہ کھولنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے مصری ہم منصب کے ساتھ تین بار ٹیلفونک گفتگو کی ہے اور دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے حالیہ سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک اچھی ملاقات بھی ہوئی۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ رفح کراسنگ کو کھولنا مصر کے ساتھ ایران کے مذاکرات کے اہم ایجنڈوں میں شامل تھا۔

انہوں نے او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے انعقاد کو کامیاب قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ اجلاس اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی کوششوں اور سعودی عرب کے تعمیری تعاون کا نتیجہ ہے۔

ناصر کنعانی نے غزہ کی پٹی کے خلاف مسلسل اسرائیلی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں تل ابیب کے خلاف عبرتناک اقدامات کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران ان حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے جنہوں نے (غزہ میں) جنگ کے خاتمے سے روکا ہے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے قیام کے لیے اپنا فرض پورا کرنے کی اجازت دیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے 7 اکتوبر سے فلسطین کے حق میں تہران کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ایران کے سفارتی اقدامات سنجیدگی سے جاری رہیں گے۔

امریکی حکام کی جانب سے ایران مخالف بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کنعانی نے کہا کہ خطے میں مزاحمتی گروہ ایران سے احکامات نہیں لیتے اور نہ ہی ایران انہیں ہدایات دیتا ہے۔ “وہ اپنی آزاد سوچ کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر عملدرآمد بھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو الزامات کے بجائے اپنے اقدامات پر توجہ دینی چاہئے،ایران شروع ہی سے جنگ کی توسیع پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے اور اس اصولی موقف کو دہراتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی حکومت کے پیغامات اس کے اقدامات سے یکسر متصادم ہیں جو وہ عملی طور پر کر رہی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *