مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے صہیونیوں کا شامی کارڈ

شام میں بشارالاسد کا دور ختم ہو گیا ہے لیکن یہ کیسے اچانک ختم ہوا، اپنے آپ میں بہت سارے سوالات لیے ہوئے ہے۔ شامی اپوزیشن کی جنگ، جسے ترکی اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، ایک پیچیدہ سیاسی اور عسکری کردار اختیار کر رہی ہے، کیونکہ اسرائیل عرب معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کرنے سمیت متعدد مقاصد کے حصول کے لیے اس کارڈ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ ایک ایسے وقت میں الٹا گیا جب جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ عرب دنیا اپنے تمام فرقوں کے ساتھ سنی اور شیعہ ایک واضح موقف لیے غاصب صہیونی ریاست کے فلسطین پر مظالم کے خلاف متحد ہیں تاہم، اسرائیل نے شام میں اپنے کارڈز منتقل کرنے سے اس متحد موقف کو تقسیم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔

ملک شام، جسے سوریا یا سوریہ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی۔ شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں 94.17 فیصد آبادی مسلمانوں کی آبادی میں غالب آبادی (63 فیصد) سنی مسلمانوں کی ہے۔ دوسرے گروپوں شیعہ (14.5 فیصد)، علوی (10 فیصد)، عیسائی (10 فیصد)، کرد (9 فیصد)، دروز (3 فیصد)، اسماعیلی (1 فیصد)، دوسری اقلیتیں (2 فیصد) کے ساتھ شام کے 74 فیصد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔ یہاں داماد رسول حضرت علی کی بیٹی جناب زینب کا روضہ مبارک ہے جہاں ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں زائرین پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی زیارتگاہیں ہیں، جو اس ملک کو تاریخی بناتی ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *