[]
مہر خبررساں ایجنسی-سیاسی ڈیسک؛ گذشتہ چند دنوں کے دوران صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ پر جارحیت کے سلسلے میں اگلا مرحلہ یعنی زمینی حملے کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔ اب تک کے واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دشمن حماس کی دفاعی طاقت کے بارے میں غلط اندازے لگاچکے ہیں۔ فلسطینیوں کا مستحکم عزم غاصب فورسز کو غزہ میں شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔
تحریک جہاد اسلامی کے مطابق حملے کے ابتدائی چند دنوں کے دوران دشمن محدود علاقوں میں چکر لگانے کے علاوہ کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ تل ابیب کے حکام نے اگرچہ غزہ میں 150 اہداف کو ٹارگٹ کرنے کا دعوی کیا ہے تاہم الجزیرہ چینل کے مطابق ان دعووں میں کوئی صداقت نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر یہ دعوے درست ثابت ہوں تب بھی غزہ میں زیرزمین سرنگوں کا جال بچھایا گیا ہے جو اس طرح کے حملوں میں آسانی سے تباہ کرنا مشکل ہے چنانچہ ویب سائٹ اکسیوس نے صہیونی فوج کو انتباہ کیا تھا کہ ان سرنگوں کے اندر حماس کے جوان صہیونی فوجیوں پر گھات لگا کر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
2001 میں حماس نے ایک سرنگ کو استعمال کرتے ہوئے صہیونی فوجی چوکی پر کامیاب حملہ کیا تھا۔ 2004 کے بعد صہیونی حکومت روبوٹ کے ذریعے ان سرنگوں کو تباہ کرنے کی مسلسل مشق کررہی ہے لیکن اب یہ سرنگیں صہیونی حکومت کے لئے موت کا کنواں بن گئی ہیں۔ مبصرین صہیونی حکومت کی جانب سے حماس کو ختم کرنے کوششوں کی کامیابی کو ان سرنگوں کی تباہی سے مشروط کررہے ہیں جہاں حماس کے کارکن چھپ کر صہیونی فورسز پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
1980 کی دہائی کے آغاز کے موقع پر مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان امن معاہدے پر دستخط اور سرحدی شہر رفح کی تقسیم نے غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کے سلسلے کو تیز کردیا تاکہ پابندیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ سرنگیں، جو ابتدائی طور پر خوراک، ایندھن، افواج، ہتھیاروں اور گولہ بارود کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی تھیں، 2007 میں حماس کے اقتدار سنبھالنے اور غزہ کی ناکہ بندی کے سخت ہونے کے بعد اس کے استعمال کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ حالیہ برسوں میں ان سرنگوں کی پیچیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ کے اندر بجلی، روشنی اور ریلوے لائنیں موجود ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی کے بڑے حصوں کا احاطہ کرتے ہیں، کچھ جگہوں پر زمین کی سطح سے نیچے 100 فٹ (30 میٹر) سے زیادہ کی گہرائی ہے۔
حماس کے سیاسی رہنما یحییٰ سنور نے 2021 میں غزہ میں 365 کلومیٹر طویل 500 کلومیٹر زیر زمین سرنگوں کے وجود کا انکشاف کیا اور ان ڈھانچوں کے دفاعی فوائد کے بارے میں کہا کہ صہیونی حکومت کی نگرانی کے آلات سے چھپانے اور مقبوضہ علاقوں میں داخل ہونے اور قابضین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ سرنگیں بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہوسکتی ہیں۔
حماس کے ساتھ 2014 کی جنگ میں اسرائیل کا مقصد سرنگوں کو تباہ کرنا تھا تاہم وہ کامیاب نہیں ہوا۔ یحیی سنوار کی جانب سے اس اسٹریٹیجک ہتھیار کا انکشاف ہوئے تقریباً 2 سال گزر چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے سرنگوں کو تباہ کرنے میں ناکامی کو 9 سال گزر چکے ہیں۔ حتمی امر ہے کہ اس عرصے کے دوران غزہ کی زیر زمین سرنگیں بھی وسیع تر ہو گئی ہیں۔ اس بنیاد پر غزہ میں سرنگوں کی لمبائی واشنگٹن کے سب وے کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ ہے۔ یہی وہ بات ہے جس نے امریکہ اور اس کی علاقائی حامی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے سب سے گنجان جغرافیائی علاقوں میں سے ایک میں ایک منظم نیٹ ورک، جو لوگوں اور سامان کی نقل و حمل کے علاوہ، گولہ بارود کے گودام اور حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور صہیونی فوج اور طیاروں کی رینج سے بلکل باہر اور محفوظ ہے۔
وہ حکومت جو 2014 کی جنگ میں غزہ کے زیر زمین نیٹ ورک کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکام ہوئی تھی اس بار دعویٰ کرتی ہے کہ وہ نئی حکمت عملی کے ساتھ سرنگوں کو تباہ کر کے حماس کا کام مکمل کرنا چاہتی ہے، لیکن ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ اس بار غلطی کا ارتکاب کررہی ہے. ایسی غلطی جو بعد میں اس کے لیے ایک اور سبق بن سکتی ہے، جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں اس وجہ کے بارے میں لکھا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن میں صیہونی حیران کیوں ہوئے؛ درحقیقت یہ حماس کی طرف سے لاحق خطرے کے بارے میں صہیونی انٹیلی جنس اور عسکری اداروں کے غلط جائزے اور فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک پر اس حکومت کی فوجی اور تکنیکی برتری کے بارے میں صیہونی سیاسی اور سیکورٹی حکام کا غرور اور تکبر تھا۔ حملے کی شدت کا کم اندازہ جس نے صیہونیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں صیہونیوں نے سرنگوں کا پتہ لگانے اور تباہ کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں ساتھ ہی ساتھ زیر زمین فضا کا نقشہ بنانے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے روبوٹک پلیٹ فارم تیار کیے ہیں، لیکن زمین کے نسبتاً چھوٹے ٹکڑے میں سرنگوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کی موجودگی صہیونیوں کی متوقع کارروائی کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ امریکی چینل سی این این نے خبردار کیا ہے کہ ان سرنگوں کے خلاف جدید سہولیات سے آراستہ اسرائیلی فوج کی کاراوئیاں غیر موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ چینل نے ان سرنگوں کو تباہ کرنے کوافغانستان میں القاعدہ کی اسی طرح کی سرنگوں کا سامنا کرنے سے زیادہ پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سرنگوں کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے گویا کوئی آئرن ڈوم موجود نہیں ہے۔
علاوہ ازین عرب نیوز نے حماس کی تباہی کا انحصار ان سرنگوں کو صاف کرنے اور گرنے پر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گنجان آباد شہری علاقوں میں لڑائی اور زیر زمین نقل و حرکت صہیونی فوج کو حاصل ٹیکنالوجی کی برتری کو خاک میں ملاسکتی ہے اور حماس کو زیر زمین اور سطح زمین پر ایک برتری دلاسکتی ہے۔
ریٹائرڈ امریکی میجر اور ویسٹ پوائنٹ کے ماڈرن وارفیئر انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ جان اسپینسر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہر کا دفاع کرنے والوں کے پاس چھپنے کی لاکھوں جگہیں ہیں۔ وہ اپنی مرضی لڑائی کا وقت انتخاب کرسکتے ہیں۔ آپ انہیں نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ سرنگ کے اندر لڑنا فوجوں کے لیے سب سے مشکل لڑائیوں میں سے ایک ہیں۔
صہیونی فوج کے تکنیکی فوائد کے بے اثر ہونے اور زمینی جنگ میں حماس کی برتری کے علاوہ سرنگوں کی جنگ حکومت کے لیے بے شمار چیلنجز کھڑی کر رہی ہے۔
حکومت کو درپیش پہلا چیلنج، جس پر ملک کے اندر نیتن یاہو پر کڑی تنقید کی جاتی ہے، کابینہ کی ان یرغمالیوں کی حالت اور قسمت کے بارے میں بے حسی ہے جو حماس کے پاس ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہیں ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے۔
صہیونی حکومت ان سرنگوں سے نمٹنے کے لئے کئی آپشنز پر غور کررہی ہے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ سرنگوں میں زہریلا گیس چھوڑا جائے تاکہ اندر موجود عناصر دم گھٹنے سے مرجائیں یا دوسرا آپشن یہ ہے کہ سرنگوں کے اندر پانی چھوڑا جائے۔
دریں اثناء بعض کا دعوی ہے کہ صہیونی اسی وقت یرغمالیوں کو چھڑانے اور سرنگوں پر قبضہ کرنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ نیویارک میں واقع سوفان سیکیورٹی تھنک ٹینک کا دعوی ہے کہ اندر پھنسے ہوئے یرغمالیوں سے سرنگوں کو صاف کرنا ایک سست اور وقت طلب طریقہ کار ہوسکتا ہے کیونکہ صہیونی سرنگوں اور ممکنہ جالوں کا نقشہ بنانے کے لیے روبوٹ اور دیگر انٹیلی جنس پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ دعوے اس وقت سامنے آئے ہیں جب متعدد جنگی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سرنگوں کی جنگ میں صہیونی فوج کی ٹیکنالوجی ناکام ثابت ہوگی۔ الجزیرہ کے مطابق حماس نے سرنگوں کے اپنے وسیع نیٹ ورک میں اسرائیل مخالف مواصلاتی ڈھانچہ بنایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دسیوں کلومیٹر کی کیبلز کو مضبوط برقی مقناطیسی شیلڈنگ کے ساتھ بچھایا گیا ہے تاکہ سگنلز کو پکڑے جانے سے روکا جا سکے۔ جدید ترین سرنگوں میں نصب یہ سامان انتہائی گہری جگہوں پر واقع ہے اور صیہونیوں سے تقریباً مکمل طور پر محفوظ ہے۔کیبلز کم سے کم مقدار میں برقی مقناطیسی شعاعیں خارج کرتی ہیں، اور زمین کے اندر 20 میٹر کی گہرائی عملی طور پر سگنل کا پتہ لگانے اور روکنے سے روکتی ہے۔
سرنگوں کی جنگ میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے صیہونی حکومت نے غزہ میں کسی بھی ایندھن کا داخلہ بند کر دیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ایندھن کے بہاؤ کو منقطع کرنے سے سرنگوں کا وینٹی لیشن سسٹم ناکام ہو جائے گا اور سرنگیں عملی طور پر ناکارہ ہوجائی گی۔ دریں اثنا، نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، عرب اور مغربی حکام کا خیال ہے کہ حماس نے غالباً غزہ کی پٹی کے زیر زمین سرنگوں میں خوراک، ادویات اور ایندھن کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں اور راکٹوں کے لیے لاکھوں لیٹر ایندھن کے علاوہ گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد اور مزید پیداوار کے لیے خام مال کے ساتھ ساتھ خوراک، پانی اور ادویات غزہ کے زیر زمین سرنگوں کے نظام میں ہونے کا امکان ہے۔
زمینی حملے اور فضائی بمباری کا امتزاج بھی ایک ایسا حل ہے جس پر نیتن یاہو کی جنگی کابینہ توجہ دے رہی ہے لیکن ماہرین کے مطابق جنگ کا یہ طریقہ کارآمد بھی نہیں ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، گہری کھدائی حماس کو ایک فائدہ دیتی ہے کہ ان کی سرنگیں صہیونی بمباری سے محفوظ رہیں۔ روایتی طور پر ایک میٹر سے زیادہ گہری کوئی بھی چیز نسبتاً محفوظ ہوتی ہے۔ زمین میں زیادہ گہرائی میں چھپے ہوئے اہداف کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی گولہ بارود کی ضرورت ہوتی ہے۔ راکٹ سے تیز رفتار بم سرنگوں اور زیر زمین بنکروں کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن غزہ میں ان کی تاثیر مشکوک ہے۔ کیونکہ ان میں زمین میں 20 میٹر گہرائی تک گھسنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
غزہ کی پٹی پر وحشیانہ صیہونی حملوں کے تسلسل اور جنگ اور تباہی کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے واشنگٹن اور بعض یورپی دارالحکومتوں کی بے پناہ حمایت کے باوجود غزہ پر صہیونی حکومت کے ممکنہ زمینی حملے کی ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا، حتیٰ کہ نیتن یاہو یا جوبائیڈن بھی، اگرچہ بائیڈن نے اپنے تل ابیب کے دورے کے دوران صہیونی رہنماؤں کو یقین دلایا تھا کہ وہ فلسطین کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ میں ان کے لیے مالی امداد، سازوسامان اور معلومات کے حوالے سے کسی قسم کی کمی نہیں کریں گے لیکن واشنگٹن حکام غزہ کے خلاف زمینی جنگ کے ناقابل تلافی نقصانات سے آگاہ ہیں۔ اور زمینی جنگ کے تباہ کن نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی حکام اس پر تاکید کرتے ہیں کہ انہوں نے غزہ پر حملہ کرنے کے بارے میں صیہونی حکومت کو کوئی مشورہ نہیں دیا۔
غزہ پر قبضے کے ارادے سے مکمل زمینی جنگ میں اترنے میں نیتن یاہو کی غلطی صیہونی حکومت کی آخری غلطی بن جائے گی۔ خطے میں اس حکومت کے خلاف نئے محاذ کھولنے سے تل ابیب کے فرضی وجود کا روئے زمین سے خاتمہ ہوجائے گا شاید وہ وقت آگیا ہے جب رہبر انقلاب کی حکومت کی تباہی کے بارے میں پیشین گوئی سچ ثابت ہوگی چنانچہ انہوں نے اپریل میں کہا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ صیہونی حکومت اگلے 25 سال نہیں دیکھ سکے گی لیکن اب لگتا ہے کہ ان کو دیر ہورہی ہے اور خود ہی جلدی جانا چاہتے ہیں۔