[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی فوجی ادارے ملٹری واچ نے ریٹائرڈ جنرل ڈگلس میک گریگر کے حوالے سے ایک خبر شائع کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران متعدد امریکی اور اسرائیلی اسپیشل فورس کے اہلکار غزہ میں آپریشن کے حوالے سے جائزہ لینے صہیونی قیدیوں کی رہائی کی منصوبہ بندی کے لئے غزہ میں داخل ہوئے لیکن جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، یہ افواج غزہ میں داخل ہوئیں ہیں لیکن حماس کی جانب سے شدید مقاومت کے بعد شدید نقصان کا سامنا کرتے ہوئے پسپائی پر مجبور ہوئے ہیں۔
بلاشبہ غزہ جنگ میں امریکہ کی براہ راست شرکت کی وجہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی نہیں تھی اور نہ آئندہ ہوگی بلکہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی فوج کی بزدلی، نا اہلی اور خوف کی وجہ سے امریکہ کو انتہائی قدم اٹھانا پڑا اب امریکہ کے پاس اس جنگ میں براہ راست مداخلت کرنے اور اسرائیل کو نابودی سے بچانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
امریکہ ایک طرف دیگر فریقین کو غزہ جنگ میں مداخلت نہ کرنے کی تلقین کررہا ہے تو دوسری جانب اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترا ہوا ہے اور جدید ترین ہتھیاروں کو بحیرہ روم کے ساحل پر پہنچا کر براہ راست اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔
امریکہ کا خیال تھا کہ قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے امریکی ہتھیاروں سے غزہ پر وحشیانہ بمباری کے ذریعے مزاحمتی تنظیموں کی قوت اور ارادے کو کمزور کرے گی لیکن اب زمینی حقائق کے مطابق بلکل اس کے برعکس نتائج سامنے آئے ہیں، مقاومتی بلاک کے ارادے اور طاقت پہلے سے زیادہ مضبوط اور دشمن دن بہ دن عقب نشینی پر مجبور ہورہا ہے۔
قابض اسرائیلی افواج کے شانہ بشانہ غزہ جنگ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت کو اتنی آسانی سے فراموش نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ غزہ کے عوام مزاحمتی بلاک مجاہدین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور یہ جنگ صرف بچوں اور عورتوں پر فضائی بمباری تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ان کی اصل جنگ مزاحمت کی بہادر فوج سے ہوگی جو اپنے بچوں، بھائیوں، ماؤں اور بہنوں کے قاتلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لمحات گن رہی ہے۔