مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غاصب صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد کی تاریخ پرانی ہے۔ اس راہ میں زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں نے قربانیاں دیں۔ کچھ مجاہدین نے قید میں اپنی پوری عمر گزاری لیکن مسئلہ فلسطین پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان افراد میں سے ایک “ثائر کاید قدورہ حماد” ہے جو حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں جیل سے رہا ہوگئے ہیں۔ ثائر اسرائیل مخالف کارروائیوں کی وجہ سے 11 بار عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
ثائر حماد جولائی 1980 میں رام اللہ کے شمال میں واقع قصبے سلواد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سابق طویل عرصے تک اسرائیلی جیلوں میں قید رہے جبکہ چچا نبیل صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ ثائر کے بھائی بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں۔
ثائر حماد بچپن سے فلسطینی تحریک کا حصہ رہے۔ نوجوانی میں صہیونی قبضے کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کا خاندان طویل عرصے سے اسرائیلی مظالم، گرفتاریوں اور تشدد کا شکار رہا ہے اس کے باوجود یہ خاندان فلسطینی مزاحمت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
تعلیمی کیریئر
ثائر حماد نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ دسویں جماعت کے بعد تعلیمی سلسلہ ترک کرکے کام کاج میں لگ گئے۔ وہ ایک تعمیراتی ورکشاپ میں مزدوری کرتے رہے۔ اسرائیلی جیل میں قید کے دوران انہوں نے خفیہ طور پر ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور پھر القدس اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے کر سوشل سروسز میں بیچلرز کی ڈگری مکمل کی۔
نظریات اور عقیدہ
الفتح تحریک کے رکن ہونے کے باوجود وہ مسلح مزاحمت کے سخت حامی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انقلاب ہر اس شخص کا راستہ ہے جو ظلم کا سامنا کررہا ہو اور کوئی بھی وجہ مزاحمت سے دستبرداری کا جواز نہیں بن سکتی۔ وہ 2007 میں محمود عباس کے حکم پر الاقصی بریگیڈ کے خاتمے کے شدید مخالف تھے۔ ان کے مطابق فلسطینی آزادی کا راستہ مذاکرات اور مزاحمت دونوں سے ہوکر گزرتا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ صرف سفارتی کوششیں کافی نہیں، بلکہ مسئلہ فلسطین کے حق میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد تبھی ممکن ہے جب فلسطینی عوام کے پاس زمینی سطح پر طاقت ہو اور وہ قابض صہیونیوں پر دباؤ ڈال سکیں۔
ثائر حماد کا ماننا ہے کہ فلسطینی گروہوں کے درمیان قومی اتحاد ہی اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کی اصل بنیاد ہے۔ ان کے مطابق داخلی تقسیم ختم ہونی چاہیے اور فلسطینیوں کو ایک مشترکہ سیاسی حکمتِ عملی پر متفق ہوکر قابض صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
ثائر حماد نے 1987 میں پہلی انتفاضہ کے دوران اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ چچا نبیل کی شہادت نے ان کے دل میں اسرائیلیوں کے خلاف شدید غصہ اور مزاحمت کا جذبہ بھڑکا دیا۔ صیہونی فوجیوں نے ان کے چچا کو پہلے پہاڑ سے دھکا دیا، جس سے ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں پھر تین گولیاں مار کر شہید کردیا۔ محض 11 سال کی عمر میں اپنے چچا کی تدفین کے دوران انہوں نے فلسطینی پرچم بلند کیا اور احتجاجی مظاہروں میں سرگرم ہوگئے۔ ثائر بچپن سے ہی قابض فوجیوں پر پتھر پھینکنے کی مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔
ثائر نے کوئی باضابطہ فوجی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دادا نے انہیں اسنائپنگ سکھائی۔ ان کے دادا اردنی فوج میں ماہر نشانہ باز تھے اور ایک خاص رائفل رکھتے تھے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں ثائر کو اس ہتھیار کے استعمال کی تربیت دی، جس کے بعد وہ ایک ماہر اور نشانہ باز بن گئے۔ اپنی مزاحمتی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے 17 صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا جو فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
ثائر حماد کی غیر معمولی کارروائی
جوانی میں ثائر حماد نے رقم جمع کرکے 1800 ڈالر میں ایک پرانی رائفل خریدی جو دوسری عالمی جنگ اور ویتنام جنگ میں استعمال ہوچکی تھی اور اس کے ساتھ 350 گولیاں تھیں۔ ثائر نے اس پرانی رائفل سے نشانہ بازی کی مشق اپنے گاؤں کے آس پاس کی پہاڑیوں اور میدانوں میں کی۔ یہی وہ ہتھیار تھا جو انہوں نے دوسری انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کے خلاف اپنی تاریخی کارروائی میں استعمال کیا۔
ثائر نے 3 مارچ 2002 کو غرب اردن کے قصبے سلواد کے قریب واقع صہیونی چیک پوسٹ پر کامیاب حملہ کیا۔ انہوں نے 4 دن تک اسرائیلی چیک پوسٹ کا بغور مشاہدہ کیا اور صبح کی شفٹ کی تبدیلی کے وقت حملہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس وقت فوجی انتہائی تھکے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ وہ خود مکمل طور پر تیار تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ 60 میٹر دور ایک پہاڑی پر پہنچے جہاں سے چیک پوسٹ مکمل نظر آتا تھا۔ انہوں نے اپنی رائفل کو ایک زیتون کے درخت پر نصب کیا تاکہ فوجیوں کی نظر سے پوشیدہ رہے۔ جیسے ہی کارروائی شروع ہوئی، انہوں نے دشمن فوجیوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا اور انہیں ہلاک کردیا۔ یہ غیر معمولی کارروائی فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم باب ہے، جس نے اسرائیلی فوج پر کاری ضرب لگائی اور انہیں حقیقی خوف میں مبتلا کردیا۔
ثائر حماد نے اس حملے میں 11 صیہونی فوجیوں کو ہلاک اور 6 کو زخمی کیا۔ تاہم فائرنگ کے دوران ان کی رائفل خراب ہوگئی اور وہ اسے ٹھیک نہ کرسکے۔ اس کے بعد کامیابی سے وہاں سے نکل گئے۔ اس حملے کے بعد بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے اور بہت سے دیہاتیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں ثائر حماد بھی شامل تھے۔ اسرائیلیوں کو یقین تھا کہ حملہ کسی بڑی عمر کے شخص نے کیا ہوگا کیونکہ یہ ایک پرانی رائفل سے کیا گیا تھا۔ ڈھائی سال تک قابض فوج ثائر کی شناخت نہ کرسکی۔ اکتوبر 2004 میں اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور انہیں تین بھائیوں سمیت گرفتار کرلیا۔ 75 دن کی تفتیش اور تشدد کے بعد ان کی انگلیوں کے نشانات ہتھیار پر موجود نشانات سے مل گئے۔ اسرائیلی عدالت نے انہیں 11 بار عمر قید کی سزا سنائی۔
ثائر حماد کو اسرائیل کی ای شل جیل میں رکھا گیا، جہاں ان کا فتح تحریک کے رہنما مروان برغوثی سے قریبی رابطہ قائم ہوا۔ برغوثی نے انہیں شہداء الاقصی بریگیڈ کے امیر کا لقب دیا، جو فلسطینی مزاحمت میں ان کے مقام اور بہادری کی علامت ہے۔
قید تنہائی اور شکنجہ
ثائر حماد کو اسرائیلی حکومت نے ایک خطرناک قیدی قرار دیتے ہوئے قید تنہائی میں ڈالا۔ ان پر مختلف قسم کے مظالم کیے گئے جن میں سخت نگرانی، بار بار تلاشی اور مختلف جیلوں میں منتقلی شامل تھی۔ انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس میں مار پیٹ، قید تنہائی، رات کے وقت اچانک تلاشی اور ذہنی دباؤ شامل تھے۔ ان پر اپنے خاندان سے ملاقات پر پابندیاں لگائی گئیں اور طبی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ ان کی کمر میں شدید درد تھا اور آنکھوں کو سرجری کی ضرورت تھی اس کے باوجود اسرائیلی حکام نے علاج کی اجازت نہیں دی۔
زندان میں کتابوں کی تالیف
ثائر نے قید کے دوران علمی اور فکری سرگرمیوں میں وقت گزار کر اپنے غموں اور دکھوں کا علاج دریافت کیا۔ وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے تھے اور اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے فلسطینی تاریخ پر تحقیق کرتے تھے۔
ثائر نے زندان میں تین کتابیں لکھیں۔ انہوں نے ایک کتاب میں اپنی زندگی اور فلسطینی قیدیوں کی کہانیاں بیان کیں۔ دوسری میں عیون الحرامیہ کے حملے کی تفصیلات شامل تھیں جبکہ تیسری کتاب میں فلسطینی مزاحمت اور قید کی زندگی کو موضوع بنایا۔