[]
محمد اسمٰعیل واجد
9866702650
وزیراعلیٰ کی کاوشوں جدوجہد اور کروڑوں روپئے کے خر چ کے بعد آخر کار سنہرے تلنگانہ کی عظیم الشان سکریٹریٹ کی عمارت کا افتتاح ہوئے کچھ عرصہ بھی بیت گیا ۔ لیکن سنا ہے کہ سکریٹریٹ کی اس عظیم الشان عمارت میں عام آدمی تو دور کی بات ضرورت مند درخواست گذاروں کو داخلے سے منع کردیا جارہا ہے، اس سے بھی تعجب خیز بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا کا بھی سکریٹریٹ کے اندر داخل ہونا مشکل ترین کام ہے بلکہ ہم اسے ممنوع بھی کہہ سکتے ہیں حکومت کے اس انوکھے اقدام پر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آتا ہے جو انہوں نے تاج محل کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر کہا تھا ؎
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق
اس طرح کے اقدام کے کیا وجوہات ہیں یہ سمجھ سے پرے ہیں، حکومت کے اس اقدام پر مختلف گوشوں سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن اس سے بڑھ کر ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں کو خاص کر شہر حیدرآباد کے مسلمانوں کو اس بات کی تشویش اور فکر ستارہی ہے کہ آخر سکریٹریٹ کی دو شہید مساجد کی تعمیرکا کام کب تکمیل کو پہنچے گا ؟کیوں حکومت اس بارے میں بات نہیں کرتی؟ کیا مساجد کے تعمیری کاموں کو التواء میں رکھا گیاہے یا اگر ہورہا ہے تو کہاں تک تکمیل کو پہنچا ؟آخر اس معاملے میں حکومت راز کے پردے کیوں ڈال رکھی ہے؟ آخر اس معاملہ میں اتنی پوشیدگی کیوں اختیار کی جارہی ہے ؟ایسے ہی کئی سوالات تلنگانہ کے مسلمانوں کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں ایسا سوال شدت اختیار کرجانا ایک فطری بات ہے چونکہ ہمارے وزیراعلیٰ کی دوسری میعادچند مہینوں میں ختم ہوجائے گی ریاست میں الیکشن کا ماحول گرم ہورہا ہے اور ٹی آر ایس سے بی آر ایس میں اپنے آپ کو بدلنے والی جماعت ایسا لگتا ہے کہ وہ نرم ہندوتوا پالیسی پر اپنے آپ کو پیش کررہی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ ریاست کے مسلم مسائل کو نہ صرف نظر انداز کررہی ہے بلکہ وہ مسلم مسائل سے دوری بلکہ مسلمانوں سے بھی دوری بناتی نظر آرہی ہے ۔ جس کی تازہ مثال تلنگانہ حج کمیٹی کے ذریعہ جو حاجی اپنے مقدس فریضہ کیلئے روانہ ہوتے ہیں اس بار حج کمیٹی کے ناقص انتظامات نہ صرف منظر عام پر آئے بلکہ ان ناقص انتظامات کی شہرت سارے ہندوستان میں ہوئی ۔
ہر بات پر امام ضامن باندھ کر پھرنے والے وزیراعلیٰ جو کہا کرتے تھے کہ ہندو مسلم میری دوآنکھ ہے، دور نظام کی قصیدہ گوئی آخر وہ کہاں گئی؟ میڈیا میں خبریں آئیں تھیں کہ وزیراعلیٰ خود بہ نفس نفیس حج ہاوز میں آکر حج جیسے اہم فریضہ پر روانہ ہونے والے حاجیوں کو جھنڈی دکھانے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ آخری دن تک مسلمانوں کی آنکھیں منتظر تھیں کہ وزیراعلی مسلمانوں کے درمیان آئیںاور حاجیوں کی روانگی پر انہیں جھنڈی دکھائیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور خبریں جھوٹی ثابت ہوئیں ،شائد وزیراعلیٰ نے سیاسی حساب کتاب کو سامنے رکھا ہو اورر مسلمانوںکے درمیان میں آنے پر انہیں نقصان کا خدشہ لگا ہو، شائد ان ہی حالات پر مشہور شاعر وسیم بریلوی نے یہ شعر کہا ہو؎
زمانہ مشکلوں میں آرہا ہے
ہمیں آسان سمجھا جارہا ہے
مسلم مسائل کو نظر انداز کرنا، ان سے چشم پوشی اختیار کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں، جن سے تلنگانہ کے مسلمانوں کو نہ صرف قلبی تکلیف پہنچی بلکہ ان کی ترقی میں حکومت نے جیسے لکیر کھینچ دی ہے چاہے وہ اقلیتی فینانس کارپوریشن سے مسلم نوجوانوں کو قرض کی فراہمی کا اعلان اور پھر اس کی عمل آوری میں رکاوٹیں ۔ مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات کی فراہمی کے وعدے کو لمبا کھینچ کر مرکزی حکومت کی چوکھٹ پر چھوڑ آنا اور اپنے آپ کو صاف ستھرا ثابت کرنا، دلت بندھو اسکیم کے طرز پر مسلم بندھو اسکیم کے احیاء کا وعدہ، شادی مبارک اسکیم کی ہزاروں درخواستیں ایک عرصہ سے زیرالتواء ہیں آخر ان کے لئے حکومت کا بجٹ کب جاری ہوگا؟ مسلمانوں کے ساتھ حکومت کی ان ناانصافیوں پر مشہور شاعر راحت اندوری کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
ان دنوں آپ مالک ہیں بازار کے
جو بھی چاہے وہ قیمت ہماری رکھیں
وزیر اعلیٰ نے اس بار برہمن سماج پر مہربانیوں کی بارش کردی ، برہمن سماج کیلئے عمارت تعمیر کردی اور بنجاری سماج کیلئے بھی انہوں نے حکومت کے خرچ پر عمارت تعمیرکردی لیکن یہاںبھی مسلمان نظر انداز ان کے ساتھ سوتیلا سلوک، تلنگانہ حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے اسلامک سنٹر قائم کرے گی، اس وعدے سے بھی حکومت نے بے وفائی کی شاید یہ سوچ کرکہ مسلمانوں کا معاملہ ہے، اس کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسری طرف ہزاروں کروڑ کی لاگت سے منادر تعمیر کئے گئے ، پجاریوں کے معاوضے میں اضافہ کیا گیا جبکہ مساجد کے موذنین وآئمہ کی تنخواہیں مہینوں روک دی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، غضب کا انصاف ہے ریاستی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ کسی کے ساتھ حکومت کچھ مہربانیاں کرتی ہیں تو کرے اُس پر کسی کو کچھ اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب وزیراعلیٰ کہتے ہیں ہندو مسلم میری دو آنکھ ہیں تو پھر مساویانہ سلوک بھی لازم ہوجاتا ہے ۔
حقیقت پسندی سے اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو ٹی آر ایس یا بی آر ایس دور حکومت میں مسلمانوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا جس کا یہاں کھل کر ذکر کیا جائے ، البتہ ہاں نقصانات زائد ہوئے، فائدہ میں اگر کچھ ملا تو وہ رمضان میں دعوتِ افطار ، غرباء میں عید کو کپڑوں کی تقسیم وغیرہ ۔
نقصانات کا اگر ہم ذکر کریں تو حکومت نے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر مسلمانوں کے دلوں پر تیر چلائے، ان کی مساجد کو شہید کیا جو مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان ہے ۔ جسے مسلمان شائد ہی کبھی فراموش کرسکیں، عنبرپیٹ کی مسجد یکخانہ کی شہادت کی بات دب کر رہ گئی ۔ سکریٹریٹ کی دو مساجد کی شہادت نے بھی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ، لیکن حکومت نے سکریٹریٹ کی دو مساجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ کیا مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لائی اور سکریٹریٹ میں مسجد کی تعمیر کی تصاویربھی دیکھنے میں آئی ہیں لیکن عالیشان سکریریٹ تعمیر ہوچکا اس میں کام کاج بھی شروع ہوچکا لیکن مساجد کی تعمیر کب تکمیل کو پہنچے گی؟ یہ مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں میں گھر کرگیا ہے … لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سکریٹریٹ کی مساجد کی تعمیر الیکشن سے پہلے مکمل کرکے مسلمانوں کو مطمئن کریں، ورنہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں نقصان بی آر ایس کا ہی ہوسکتا ہے۔
٭٭٭