[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ فارس کے پبلک پراسیکیوٹر کے نمائندے نے عدالتی ٹرائل کے دوران تاجکستان سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم رحمت اللہ نوروزوف پر خدا کے خلاف جنگ، فساد فی الارض اور ایران کی سلامتی کے خلاف کام کرنے کی نیت سے داعش دہشت گرد گروہ میں رکنیت کا الزام لگایا۔
انہوں نے دیگر دونوں ملزمان پر بھی مذکورہ جرائم کے نیٹ ورک کا حصہ بننے کا الزام لگاتے ہوئے کڑی سزا کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ 13 اگست کو نوروزوف المعروف اسلم یار نے شاہ چراغ مزار میں فائرنگ کھول دی جس کے نتیجے میں دو افراد شہہد اور سات زخمی ہوئے۔ اس کے پاس مذکورہ حملے کے وقت ایک اسالٹ رائفل اور آٹھ میگزین تھے جن میں 240 گولیاں تھیں جنہیں وہ گرفتار ہونے سے قبل ہی خالی کرچکا تھا۔
واضح رہے کہ داعش دہشت گرد گروپ نے مذکورہ دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے نوروزوف نے کہا کہ وہ ایک غیر ملکی پیغام رسانی ایپ کے ذریعے داعش میں شامل ہوا تھا اور اسے ترکیہ جانے کی سفارش کی گئی تھی۔
مذکورہ دہشت گرد نے مزید کہا کہ وہ ترکیہ سے غیر قانونی طور پر ایران، پاکستان اور افغانستان میں داخل ہوا تھا جہاں اس نے فوجی تربیت حاصل کی۔
اس نے کہا کہ ایران میں دوبارہ داخلے کے بعد وہ شاہ چراغ مزار کے قریب ایک گھر میں تقریباً ایک ماہ تک رہا اور اس دوران داعش سے دوبارہ رابطہ قائم کرکے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرتا رہا۔
تاجک دہشت گرد نے مزید کہا، “میں نے نشانہ بنائے گئے لوگوں کی تعداد نہیں گنی لیکن میگزین میں آخری گولی تک فائرنگ جاری رکھنے کا ارادہ کیا۔”
انہوں نے کہا کہ انہیں پٹرول کے دو ڈبے ساتھ لے جانا کا حکم دیا گیا تھا تاہم وہ اپنے بیگ میں صرف ایک گیسولین ڈبہ لے کر حرم مقدس میں داخل ہوا تھا اور اس سے پہلے کہ نمازیوں کی جگہ پر قالین نذر آتش کرتا، پکڑا گیا۔