
حیدرآباد 7- اپریل ( اردو لیکس )ڈاکٹر سید عباس متقی ملنسار ‘ شگفتہ مزاج اور حیدرآبادکی وضعدار شخصیت تھے طنزومزاح ‘ مذہبی اودبی دنیا میں وہ کافی مقبول ومعروف رہے ان کا علمی وادبی دائرہ کافی وسیع تھا انہوں نے درس وتدریس کیساتھ قرآنی آیات کامنظوم ترجمہ بھی کیا تھا ان خیالات کا اظہار انجمن طنزومزاح واردو سوسائٹی کے زیر اہتمام
6- اپریل اتوار کی شب اردوگھر مغل پورہ میں صدرانجمن طنز ومزاح جناب محمد وہاج الدین صدیقی نے ڈاکٹر عباس متقی مرحوم کے تعزیتی جلسہ سے صدارتی خطاب کے دوران کیا جناب وہاج صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر عباس متقی کی زندگی کے آخری سفر کا آغاز سحرکے وقت شروع اور اختتام وقت افطار ہوا اللہ نے ان کے ساتھ اپنا خاص فضل وکرم کا معاملہ فرمایا ان کی زندگی مثالی رہی انہوں نے اپنے طلباء اور محبان سماج کے سب ہی عزت دار لوگوں کے ادب واحترام کا درس دیا اورخود بھی اس پر عمل پیرا رہے روزنامہ منصف میں ان کے بیشمار مضامین شائع ہوۓ ہیں جو طنز ومزاح کے قارئین کی ادبی تسکین کا باعث رہے ماہنامہ شگوفہ میں بھی ان کے مضامین اور کلام کو بڑی ہی قدر و منزلت کے ساتھ شائع کیا گیا انہوں نے اردوزبان ہی نہیں بلکہ فارسی اور عربی کی بھی بڑی خدمت کی انہیں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ اور مخدوم ایوارڈ کے علاوہ متعدد
ادبی ایوارڈس سےنوازاگیا تھا وہ اردو اور فارسی کی درجنوں کتابوں کے مصنف تھے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کو وہ مزید مستحقہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ اولین مستحق تھے جلسہ کا آغاز بانی و سکریٹری اقراء سوسائٹی قاری عبد القیوم شاکر کی قراءت کلام پاک سے ہواجناب عمر احمد شفیق نے جلسہ کی کاروائی چلائی قاری محمد علی سلیم نے نعت شریف سنائی اور عباس صاحب کو پُر اثر خراج عقیدت پیش کیا ڈاکٹر عباس متقی کی صاحبزادی سیدہ مہر النساء عفیفہ نہاں نے اپنے والد محترم کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا متقی صاحب کے فرزندان سید عبدالمجید شعیب اور سید عبدالمہمین اسامہ نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓ کہا کہ ڈاکٹر سید عباس متقی اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل تھے ان کے مزسج میں بردباری تھی وحلیم الطبع شخصیت تھے وہ خود تکلیف سہنے کے عادی اوردوسروں کو خوش دیکھنے کے عادی تھے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں بے انتہا عشق تھا ایک اور فرزند سید عبدالنافع خُبیر کا پیام سید عبدالمہمین اسامہ نے پڑھ کر سنایا اس موقع پرفرزندان سید عبدالمغیث حسان اور سید عبدالمعز ثنان کے علاوہ محمد اصغر( اجو) حال مقیم امریکہ ‘ سید عبدالباری متین دختران سیدہ نجم النساء صفورہ’ سیدہ وقمر النساء شاکرہ کے علاوہ متقی صاحب کے
قریبی عزیز ڈاکٹر عبدالنعیم فیضی بھی موجود تھے مولانا سید شاہ فصیح الدین نظامی نے کہاکہ لہجہ ‘ کردار وگفتار کے لحاظ سے عباس متقی صاحب مثالی شخصیت تھے انہوں نے غمزدہ لوگوں کو جینے کا ہنر بتایاتقریر وتحریر میں وہ یکتاۓ زمانہ تھے ان کی باتیں اور افکار لوگوں کے دلوں میں تادیر باقی رہیں گے ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے بھر پُور خراج پیش کرتے ہوۓ کہا کہ اردو دنیا میں ڈاکٹر عباس متقی کا نام جس طرح روشن رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہےطنز ومزاح کے ذریعہ انہوں نے صرف ہنسنے ہنسانے کا کام نہیں کیا بلکہ اپنی تحریروں سے انہوں نے بڑے پیمانے پر سماج کی اصلاح کا کام کیا تعمیرملت کے جلسوں کے علاوہ کئی مذہبی جلسوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی خطابت کا لوہا منوایا حضرت مولانا محمد حمید الدین صاحب حسامی عاقل سے متقی صاحب کی صحبت بافیض سے انہوں نے کافی اکتساب کیا جناب محمد حُسام الدین ریاض نے عباس متقی صاحب سے اپنی دیرینہ رفاقت کو یاد کرتے ہوۓ کہاکہ طنز ومزاح کی دنیا میں اگر چہ کہ کئی نام ہیں لیکن ان کی تحریروں کی ہر سطر میں طنز ومزاح نے ان کو بلند وبالا مقام پر پہنچایا عالمی شہرت یافتہ واعظ دکن مولانا محمد حمید الدین صاحب عاقل حسامی رح کی منعقد کردہ اور دیگر دینی محافل میں ان کا زور خطابت لائق سماعت تھا مزاج میں حد درجہ کی شگفتگی تھی وہ بیک وقت ایک سرکاری مدرسہ کے معلم ‘ خطیب ‘ فارسی اور عربی کے ماہر شخصیت تھے ہر چھوٹے وبڑے سے شفقت کے ساتھ ملنے کے انداز نے انہیں سب کو اپناگرویدہ بنالیا تھاجناب نسیم الدین فریس سابق ڈین اسکول آف لینگویجس ( مانو) نے کہاکہ عباس متقی کا انتقال ایک شخصیت کا نہیں ایک عہد ایک شہر اور ایک تہذیب کی موت ہوئی ہے ہم نے ایک مخلص ‘ شیریں گفتگو شخصیت کو کھو دیا ہے ایسی شخصیات بار بار پیدا نہیں
ہوتیں مولانا سید بشیر الدین حسامی نے کہا کہ ڈاکٹر عباس متقی افراد سازی کے فن سے واقف تھے تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے وہ طلباء کو ادبی مزاح سے کام لیا کرتے تھےممتاز شاعر ظفر فاروقی ( ادارہ ادب اسلامی ) نے کہاکہ عباس صاحب کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر مشاعرہ سے پہلے ان کا مضمون سنا جاتا تھا وہ زندہ دل تھے اور لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گےزندہ دلان حیدرآباد میں ان کا ایک خاص مقام رہا ہے جناب مخدوم جمالی نے منفرد ا نداز میں خراج پیش کرتے ہوۓ کہاکہ
اۓ موت تجھ سے ملی ہے یہ آگہی مجھ کو
کہ لوگ روتے بھی ہیں ‘ خاک میں ملانے کے بعد
قاری محمد عبدالقیوم شاکر نے کہا کہ ڈاکٹر عباس کے کئی علمی کارناموں میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے طلباء کو صحیح مخارج کیساتھ قرآن مجید کی تلاوت کی تربیت کی تھی جناب عمر احمد شفیق نے کہاکہ ڈاکٹر عباس متقی ملنسار اور باوقار شخصیت تھے انداز تخاطب مدتوں بھلایا نہیں جاسکتا وہ تعمیر ملت سے برسوں وابستہ رہے کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود وہ تکبر سے پاک انسان تھے انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ڈاکٹر عباس متقی کی حیات اور کارناموں پر بہت جلد ایک کتاب شائع کی جاۓ گی جناب ایم اے باسط خاں ( قائدٹی ایس ٹی یو ) نے اپنے دیرینہ روابط کا تذکرہ کرتے ہوۓ ڈاکٹر عباس متقی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اوران کےلئے دعاۓ مغفرت کی جناب حننیف ڈھاکلی نے کہا کہ متقی صاحب کی حیات اور کارناموں کا احاطہ مشکل ہے وہ سب کے لئے مثالی نمونہ تھے ہم سب نے ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا ہے اللہ انہیں
جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ جناب محمد علی سلیم’ محمد شہاب الدین ‘ مکرم علی ارشد ‘ شاکرصدیقی ‘ عبدالعلیم فارس اور دوسروں نے انتظامات میں حصہ لیا اس موقع پر مولانا عبدالحفیظ اسلامی ‘ جناب عباس حسین جنیدی ‘ جہانگیر قیاس ‘ ڈاکٹر ناظم علی ناظم ‘ نجیب احمد نجیب ‘ محمد حسین قادری عارف ( متحدہ عرب امارات ) اور دیگر معززین موجودتھے۔