پولیس نے ٹھگوں کے گروہ سے 400 نوجوانوں کو آزاد کرایا، پانچ گرفتار

پولیس نے بتایا کہ یہ صرف فراڈ کا معاملہ نہیں، بچوں کو بھی یرغمال بناکر رکھا جاتا تھا۔ اس کی مکمل چھان بین کی جا رہی ہے اور محکمہ لیبر کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

بہار کے مشرقی چمپارن ضلع کے سرحدی شہر رکسول میں جعلی مارکیٹنگ کمپنیوں کے ٹھکانوں پر چھاپہ مار کر 400 نوجوانوں کو آزاد کرایا گیا ہے۔پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات نے ہفتہ کو خبر رساں ایجنسی یو این آئی کو بتایا کہ اطلاع ملی تھی کہ بن میکر اور ڈی بی آر او نامی دو کمپنیاں دواؤں کے کاروبار کی آڑ میں نوعمروں اور نوجوانوں کو نوکریوں کے نام پر دھوکہ دے رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کا نیٹ ورک بہار، اتر پردیش، نیپال، اڑیسہ سمیت کئی ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس اطلاع کی بنیاد پر مشرقی چمپارن ضلع کی پولیس اور سشسترا سیما بال (ایس ایس بی) کی 47ویں بٹالین نے مشترکہ طور پر دو فرضی مارکیٹنگ کمپنیوں کے احاطے پر چھاپہ مارا۔

چھاپے کے دوران 400 نوجوانوں کو رہا کیا گیا جن میں چار لڑکیاں اور کچھ نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔ اس آپریشن کی قیادت رکسول کے سب ڈویژنل پولیس افسر دھیندر کمار اور ایس ایس بی کے اسسٹنٹ کمانڈنٹ دیپک کرشنا نے مشترکہ طور پر کی۔ اس معاملے میں گروپ آپریٹر سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ صرف فراڈ کا معاملہ نہیں، بچوں کو بھی یرغمال بناکر رکھا جاتا تھا۔ اس کی مکمل چھان بین کی جا رہی ہے اور محکمہ لیبر کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔

پربھات نے کہا کہ نوعمروں اور نوجوانوں کو نوکریوں اور تربیت کے نام پر بلایا جاتا ہے۔ نوکری کے نام پر ان سے پیسے لیے جاتے تھے اور ان سے ادویات کی پیکنگ جیسے کام کروائے جاتے تھے۔ ایک بار جب وہ اس ریکیٹ میں شامل ہوئے کے بعد باہری دنیا سے کٹ جاتے تھے۔ چھاپے سے پہلے ہر روز 100 سے 500 ایسے بچے فورمل ڈریس میں شہر کے مختلف علاقوں رکسول میں دیکھے جاتے تھے۔ ان بچوں کو ناگا روڈ، کوئیریا ٹولہ، بلاک روڈ، سینک روڈ، کوڈیہار اور موجے علاقوں میں سرگرم دیکھا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *