سوچ کو بدلنے کی ضرورت

[]

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

تبدیلی ایک ضرورت ہے؛ اس لیے تبدیلی ہونی چاہئے، کیاآپ دیکھتے نہیں کہ بہت سارے ڈاکٹرس مختلف قسم کے امراض کے شکارلوگوں کومشورہ دیتے ہیں کہ آپ جگہ کوتبدیل کریں، آب وہوا بدلے گی توآپ ٹھیک ہوجائیں گے؛ لیکن یہ تبدیلی مثبت ہونی چاہیے، منفی نہیں؛ کیوں کہ مثبت تبدیلی انسان کوصحت مندبناتی ہے، جب کہ منفی تبدیلی اسے بیمار کردیتی ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے، ایسی ایسی تبدیلیاں کہ عقل حیران رہ جائے اورسوچنے پر مجبور ہوجائے کہ ان تبدیلیوں کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جب حکمرانِ وقت اپنے آپ کوبھگوان کا درجہ دیدیں توپھروہ کسی کی نہیں سنتے، دنیا ادھر سے اُدھر ہوجائے، کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، وہ ایسی تبدیلیاں لے کرآتے ہیں، جونہ ان کے لیے مفیدہوتی ہیں اورنہ ہی ملک کے لئے؛ لیکن ہٹ اوراناکے خول میں اس قدرگھس جاتے ہیں کہ ان کو اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتاکہ ہم جوچاہیں، کریں، ہم کسی کی نہیں سنتے؛ لیکن ایسے حکمرانوں کویہ بات یادرکھنے کی ہے کہ دنیااوردنیاوالے سب کوایک دن فناہے، بقاکسی کونہیں ہے یہاں۔
اس دنیاکے اسٹیج پرکتنے فراعنہئ مصرآئے، جنھوں نے اپنے آپ کو”سب سے بڑا رب“ کہا؛ لیکن وہ پانی کے زیروبم میں ڈوب گئے اوران کادعویٰ دھرا کادھرا رہ گیا، نماردہئ کامدان نمودارہوئے، جنھوں نے خدائی کادعویٰ کیااورکہاکہ میں بھی لوگوں کومارتااورجلاتاہوں؛ لیکن جب موت کے آکٹوپس نے دبوچاتودَم مارنے کے قابل بھی نہیں رہے، قیصر وکسریٰ آئے؛ لیکن نام ونشان مٹ گیا، ابرہہ آیا، جس نے کعبہ کوڈھانے کے لئے مکہ پرچڑھائی کردی؛ لیکن خودکاجسم پورپورکٹ گیااورمٹی میں رَل مل گیا، خلاصہ یہ کہ جوبھی اس دنیا میں آیا ہے، خواہ اس کی سلطنت کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو؟ اس کی حکومت کاکتناہی دبدبہ کیوں نہ ہو؟اس کے حکم کے ایک اشارہ پرچلنے والوں کی تعداد کتنوں ہی کیوں نہ ہو؟ سب خاک میں مل گئے:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
ہاں توبات چل رہی تھی اپنے ملک کے اندر تبدیلی کی،کتنے سڑکوں کے نام بدل دیے گئے، کتنے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کردیے گئے،کتنے حقوق اوررائٹس بدل دیے گئے، کتنے قوانین بدل دئے گئے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے کیافائدہ ہوا؟ آب و ہوا بدلی؟ لوگ بدلے؟ لوگوں کے مزاج بدلے؟ لوگوں نے اس تبدیلی سے کتنی ترقی کی؟ سڑکوں کے نام بدلنے سے کیاان سڑکوں پرہونے والی چوریاں رک گئیں؟ ان سڑکوں پرہونے والی چھینا جھپٹی کم ہوئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی ایوٹیزنگ رک گئی؟ ان سڑکوں پربھیک مانگنے والوں کی کمی ہوگئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی عصمت دریاں تھم گئیں؟ ان سڑکوں پرچلنے والے تہذیب وشرافت کے دائرہ میں آگئے؟ معمولی معمولی بات پر اٹھنے والے جھگڑے رک گئے؟ ان سڑکوں کے اردگرد رہنے والے تعلیم یافتہ اورانٹلکچول بن گئے؟کیالوگوں کی سوچ بدل گئی؟ ان کے دلوں میں نفرت کی بجائے محبت کاجذبہ پیداہوگیا؟ کیااس سڑک کے کنارہ گندے کپڑوں میں بچے کنچے کھیلتے نظرنہیں آرہے ہیں؟کیاوہاں پانی کے لیے اب لائن نہیں لگانی پڑتی؟ کیاوہاں کی بجلی غائب نہیں ہوتی؟ کیااس سڑک پرگڑھے پڑے ہوئے نہیں ہیں؟ کیااس سڑک کی نالیاں صاف ہوگئیں؟ کیااس سڑک کی نالیوں سے گندہ پانی ابل ابل کرنہیں نکل رہا اورہرراہ چلنے والے کامنھ نہیں چڑارہا؟ کیااس سڑک کوکبھی الکٹرک والے، کبھی کیبل والے اورکبھی ڈرینج والے کھود کھود کرخراب نہیں کررہے ہیں؟ اگریہ سب نہیں ہورہا ہے توپھرتبدیلی مبارک اورکامیاب ہے؛ لیکن اگریہ سب ویسے کاویساہی ہے توپھرنام کے بدلنے کاکوئی فائدہ نہیں۔
اس وقت زوروشورسے یہ خبرگردش میں ہے کہ اب (INDIA) کانام تبدیل کرکے (BHARAT)رکھ دیاجائے گا، سوال ہے کیوں؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیوں کہ اس کے تودونوں نام پہلے سے ہی ہیں، بھارت کے آئین میں یہ بات درج ہے، دفعہ نمبر(۱) کے نمبر(۱) میں ہے:
India, that is Bharat, shall be a Union of States.(The Constitution of India, page no:33)
اب بتایاجائے کہ جس کاپہلے سے ہی ”بھارت“ نام ہو، اب دوبارہ ”بھارت“ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ توتحصیل حاصل اورلایعنی کام ہے، پھر یہ اتناآسان بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ آزادی کے بعد؛ بلکہ پہلے سے ہی ہرہرچیز میں انڈیالکھاگیاہے، جب بھی انگریزی میں لکھا گیا، انڈیالکھا گیا، ہندی میں زیادہ تربھارت لکھا جاتارہا ہے، اردومیں ہندیاہندوستان لکھاجاتاہے، اگر ہر جگہ سے ”انڈیا“ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی توہوسکتا ہے کہ یہ ملک پھرسے غلام بن جائے؛ کیوں کہ ۱۹۴۷ء میں جس ملک کوآزادی ملی تھی، وہ انڈیاتھا، کاغذات میں یہی لکھاگیاہے، لہٰذا بھارت کے غلام ہونے کادعوی کیاجاسکتا ہے۔
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ نام کی تبدیلی مفت میں نہیں ہوگی، ایک نیوز ویب سائٹ کے مطابق اس کے لیے ۱۴/ہزارکروڑکابوجھ ملک پرآئے گا، افریقی نژاد انیلکچول پراپرٹی قوانین کے ماہر وکیل مسٹرڈارین اولیویئیونے بتایاکہ اگرانڈیاکانام بھارت کیاجاتاہے توایسی صورت میں ہندوستان پر۱۴/ہزار۳۰۴کروڑ کابوجھ عائد ہوگا، یہ اندازہ سوازی لینڈ کا نام تبدیل کرکے ایسواتنی کئے جانے پرہوئے خرچ سے لگایاگیاہے، جس پر ۶۰ملین ڈالرخرچ کرنے پڑے تھے، اگریہ اندازہ صحیح ہے اورقیاس یہی ہے کہ صحیح ہوگا؛ کیوں کہ ملک کے پاسپورٹ، سپریم کورٹ، سی بی آئی، الیکشن کمیشن آف انڈیا، آربی آئی وغیرہ کے علاوہ تمام قومی تعلیمی اداروں اوردیگرمقامات، جہاں لفظ ”انڈیا“ کااستعمال ہوا ہے، ان سب کوتبدیل کرنا ہوگا، ہندوستان میں ۲۸/ ریاستیں، ۸/ مرکزی زیر انتظام علاقے، ۷۶۶ اضلاع کے علاوہ ۶ لاکھ ۴۰ ہزار مواضعات ہیں، ہر جگہ اس نام کوبدلنا ہوگا، ایک خبرکے مطابق ”الہٰ باد“کو ”پریاگ راج“ کرنے پر ۳۰۰ کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔
سوچیے اور سر پکڑکر بیٹھ جایئے کہ ہم عوام پرمختلف قسم کے ئیکسیز عائدکرکے ہماراجینا دوبھرکردیاگیاہے، مہنگائی نے ہرایک کی کمرتوڑکررکھ دی ہے اوریہ اقتدارپربیٹھے ہوئے لوگ بلاضرورت اوربلاوجہ کروڑہاکروڑروپے پانی میں بہادے رہے ہیں؛ لیکن افسوس! کوئی ان پربات کرنے والا نہیں، میڈیا، جس کاکام تھا عوام تک صحیح جان کاری پہنچانے کا، وہ دم ہلانے کے سواکوئی کام نہیں کررہا ہے۔
اس وقت ملک میں بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے، اگران کروڑہاکروڑ رپیوں کواس کے مٹانے کے لیے خرچ کیاجاتا توملک سے بے روزگاری ختم ہوجاتی؛ لیکن ایسانہیں کرسکتے؛ کیوں کہ سیاسی روٹیاں جو سینکنی ہے، اب انڈیا کو بھارت بنانے کامقصد بھی یہی سیاست ہے، اپوزیشن نے اپنے اتحادکانام ”انڈیا“ قراردیاہے، جس کی وجہ سے حکمراں طبقہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اوراسی کھلبلی میں یہ سب الٹی سیدھی حرکتیں کی جارہی ہیں۔
نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا، انڈیامیں سالوں سے موب لنچنگ جاری ہے، تہواروں میں آگ لگانے کام کیاجارہا ہے، اقلیتوں کومستقل طورپرہراساں کیاجارہا ہے، مسلمانوں کوہرجگہ نشانہ بنایاجارہا ہے، ان کے پرسنل لاء پرمداخلت کی جارہی ہے اورسب سے بڑھ کریہ ہے کہ پورے ملک میں نفرت کازہربودیاگیاہے، مسلمان نام کوایک چڑ بنادیاگیاہے، اب اگرانڈیاکوبھارت کردیں گے توکیا یہ سب ختم ہوجائے گا؟ ملک کانام بدلنے سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرتی سوچ کوبدلاجائے، ہندومسلم کے مابین جوزہربویاگیاہے، اس کوختم کیاجائے، اونچ نیچ کاجوفرق بنایاگیاہے، اس کومٹایاجائے، ان چیزوں میں تبدیلی پیداکریں، اس سے ملک کی ترقی ہوگی، ملک کانام بدلنے سے ملک میں ترقی نہیں آئے گی؛ بل کہ الٹا۱۴/ ہزارکروڑ کابوجھ عوام کے کندھوں پرآجائے گا؛ اس لئے سوچ کوبدلئے، سوچنے کے انداز کوبدلئے، ملک کے نام کونہیں۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *