ٹنل حادثہ، ایک ماہ بعد بھی سات مزدوروں کا حشر معلوم نہیں

حیدرآباد: ایس ایل بی سی ٹنل ریسکیو مشن لگتا ہے فیصلہ کن موڑمیں داخل ہو گیا ہے.حادثہ کو رونما ہوئے ایک ماہ گزر چکا ہے اور اب بھی سات مزدوروں کی بازیابی پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایک ماہ طویل بڑے پیمانہ پر جاری ریسکیو آپریشن، جس میں ہندوستانی فوج سمیت درجنوں ایجنسیاں شامل ہیں، آج ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔

ایس یل بی سی ٹنل حادثہ کے نازک آخری 40 میٹر کے حصہ کو اب بھی ممنوعہ زون قرار دیا گیا ہے، جبکہ حکام کو ایک مشکل فیصلہ کرنا باقی رہ گیا ہے کہ کیا مزید خطرہ مول لے کر ملبہ میں تلاش جاری رکھی جائے یا تسلیم کر لیا جائے کہ سات مزدوروں کو بازیاب کرنا ممکن نہیں ہے؟

22 فروری کو ٹنل بورنگ مشین کے ذریعہ جاری کام کے دوران اچانک سرنگ کی چھت کا حصہ گرپڑا، جس سے مزدور ریت، چٹانوں اور مشنری کے نیچے دب گئے۔ 9 مارچ کو ٹی بی ایم آپریٹر گرپریت سنگھ کی لاش برآمد ہوئی، مگر دیگر سات مزدوروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔واضح رہے کہ اس ریسکیو آپریشن میں 300 سے زائد اہلکار شامل ہیں، جن میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس، اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس، سنگا رینی کا لیریز اور کیرالا کے اسنیفر ڈاگ اسکواڈ شامل ہیں۔ تاہم، جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے آخری 40 میٹر کے حصے کو ”ممنوعہ زون“ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ معمولی چھیڑ چھاڑ بھی مزید حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ریسکیو ٹیمیں، ہائیڈرالک روبوٹس، ویکیوم پمپ اور کنویئر بیلٹس کے ذریعہ 1,500 ٹن ملبہ ہٹانے میں مصروف ہیں، مگر کام کی رفتار انتہائی سست ہے۔ 18 مارچ کو ٹی بی ایم کے تباہ شدہ حصہ کو بڑی حد تک نکال لیا گیا، لیکن مزدوروں کا کوئی سراغ نہ ملا۔ 20 مارچ تک 27 دن گزر چکے تھے، مگر ”محفوظ زون” میں بھی تلاشی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف حکومت نے گرپریت سنگھ کے اہل خانہ کو 25 لاکھ روپے ایکس گریشیا فراہم کیے، لیکن باقی سات مزدوروں کے اہل خانہ امداد کے منتظر ہیں۔

ماہرین نے اس منصوبہ کی حفاظتی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، 2020 میں دی گئی زلزلہ وارننگ سگنلس کو نظر انداز کیا گیا، جو اس حادثہ کی ممکنہ وجوہات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن تمام ممکنہ ذرائع استعمال کر رہا ہے، لیکن حادثہ کے شکار مزدوروں کی بازیابی پر اب بھی غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *