مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک گفتگو کے دوران کہا کہ ہمیں ٹرمپ کی توقعات سے کوئی سروکار نہیں ہے، ہم اپنے مفادات کے تحت جو بہتر سمجھتے ہیں وہ انجام دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے ہیں، یہ ایک تاریخی تجربے اور پس منظر کی وجہ سے ہے، کسی ضد کی وجہ سے نہیں، میں ایک مذاکرات کار اور سفارت کار کے طور پر کہتا ہوں کہ ان حالات میں، امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونا اب ممکن نہیں، جب تک کہ کچھ چیزیں تبدیل نہ ہوں۔
ایسی صورت حال میں کہ جب ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہمیں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایران اور امریکہ کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ٹرمپ ایران کو خط لکھنے کے لیے تیار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام راستے بند نہیں ہیں؟
خط و کتابت سفارت کاری کا حصہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ دباؤ اور دھمکی کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔ بھیجے گئے خط کے بارے میں کوئی فیصلہ کیے بغیر، میں آپ کو جواب دوں گا کہ خط کو اکثر سفارت کاری کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایک ہی وقت میں، یہ دوسرے پروگراموں کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ سفارت کاری کا راستہ بند ہو گیا ہے۔ کیونکہ سفارت کاری کا متبادل جنگ ہے۔ اس لیے تمام ممالک سفارت کاری کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں البتہ بعض اوقات جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن اہداف کے حصول کا یہ ایک مہنگا اور پرخطر طریقہ ہے اور اسی لئے ہر کوئی سفارت کاری کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ کم خرچ طریقہ ہونے کے ساتھ کم خطرات کا حامل بھی ہے۔
ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اس کے لئے تیار ہیں
ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ہم نے ہمیشہ جنگ سے گریز کیا ہے۔ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں اور ہم اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ لیکن ہم جنگ کے خواہاں نہیں ہیں اور یہ واضح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خاص طور حالیہ برسوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہم جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔ تاہم ڈرنے والے نہیں ہیں اور کسی بھی صورت حال کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جس حد تک ممکن ہو اس سے گریز کرتے ہیں۔ کیونکہ جنگ کے اپنے خطرات اور نقصانات ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک بار ایک ایسی جنگ کا تجربہ کیا جو ہم پر مسلط کی گئی تھی۔ لہذا، اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی یقینی طور پر سفارت کاری پر مرکوز ہے۔
عراقچی نے کہا کہ یہ حقیقت کہ ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے ہیں، یہ ایک تاریخ اور تجربے کی وجہ سے ہے، کسی ضد کی وجہ سے نہیں۔ ایک مذاکرات کار اور سفارت کار کے طور پر میں کہتا ہوں کہ ان حالات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنا اب ممکن نہیں رہا، جب تک کہ کچھ چیزیں تبدیل نہ ہوں۔