مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی طیاروں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا، جب لوگ گھروں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں میں سو رہے تھے۔
غزہ کے مختلف علاقوں جبالیہ، غزہ سٹی، نصیرات، دیر البلح اور خان یونس میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، جبکہ خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد شہید ہوگئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی تازہ بمباری کے بعد غزہ میں شہادتوں کی مجموعی تعداد 48 ہزار 572 تک جا پہنچی، جبکہ سرکاری میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
حماس نے اسرائیل کے اس حملے کو ’غدارانہ حملہ‘ قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر احتجاج کی اپیل کی اور عرب و اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں۔
غاصب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ یہ جنگ بندی کا خاتمہ ہے اور حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک تمام یرغمالی آزاد نہیں ہوجاتے۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے بھی کہا کہ اگر جنگ روکنی ہے تو تمام یرغمالیوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
قابض اسرائیلی وزیر دفاع نے بھی “غزہ پر جہنم کے دروازے کھولنے” کی دھمکی دی اور کہا کہ حماس پر پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک حملے کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، اس حملے سے قبل اسرائیل نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشاورت کی تھی، جبکہ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے سبھی گروہوں کو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔
رائٹرز کے مطابق، اسرائیلی فوج زمینی حملے کی بھی تیاری کر رہی ہے، جس سے غزہ میں مزید تباہی کا خدشہ ہے۔
ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ غزہ پر شدید حملے ہوں گے جس کے لئے صہیونی فوج کو مکمل تیار کیا گیا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تل ابیب کو غزہ پر حملے کے لیے گرین سگنل دیا ہے۔
صہیونی حملوں کے ردعمل میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو ان وحشیانہ حملوں کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔
حماس کے بیان میں کہا گیا کہ نتن یاہو حکومت کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد غزہ میں صہیونی یرغمالیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
حماس نے بین الاقوامی ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور اپنے وعدوں سے انحراف پر صہیونی حکومت سے جواب طلب کریں۔