ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
حضرت علی ؓسے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے پیشرو خلیفہ کا زمانہ بہت شاندار رہا لیکن آپ کے دور خلافت میں کچھ خامیاں دکھائی دیتی ہیں تو آپ نے برجستہ فرمایا کہ جب عمرؓ خلیفہ تھے تو ہماری جیسی شخصیتیں اُن کے مشیر ہوا کرتے تھے۔ آج جبکہ ہم خلیفہ ہیں تو تم جیسے نکمے لوگ ہمارے مشیر ہیں۔ یہ حقیقت چیف منسٹر کے دفتر پر پوری طرح صادق آتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ حیدرآباد کے جید روزنامے منصف کے اشتہارات کو یہ کہہ کر روک دینا کہ وہ حکومت کے خلاف لکھ رہا ہے انتہائی معیوب بات ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ تنقید کو مثبت انداز میں قبول کیاجائے تاکہ سرکار کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔ ہر اخبار حکومت کے مثبت کارناموں کو جس قدر دلچسپی کے ساتھ شائع کرتا ہے اُسی طرح حکومت کی ناکامیوں کو بھی اتنی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور یہ بات ساری دنیا کے اخباروں پر صادق آتی ہے۔ چیف منسٹر کے آفس کو صحافت کے ساتھ بے انتہا مثبت تعلقات رکھنا چاہئے اور خاص طورپر اقلیتی زبانوں کے اخبارات بالخصوص اُردو روزناموں کے ساتھ اس کے دفتر کا رویہ دوستانہ ہونا چاہئے۔
اقلیتیں کسی بھی نا انصافی کی صورت میں چیف منسٹر کے دفتر سے رجوع ہوتی ہیں اگر یہی دفتر اُن کا مخالف ہوجائے تو یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ تعلقات عامہ کی خصوصیت ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات بنائے رکھے اور حکومت کے تئیں مثبت تشہیر کرسکے۔ اگر یہی محکمہ تنگ نظری کا مظاہرہ کرے تو پھر جمہوریت کا خدا ہی حافظ ہے۔
تلگو کے روزنامے آندھرا جیوتی میں کانگریس پارٹی کو انتہائی رکیک گالی سے مخاطب کیا گیا اور اس بہادر حکومت نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا یعنی طاقتور ادارہ کے خلاف ایک الگ رویہ اور اُردو جیسے کمزور اداروں کے ساتھ دوسرا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ کانگریس کی عوامی حکومت اپنے وعدوں سے انحراف کررہی ہے۔ اقلیتوں اور اُردو والوں نے کانگریس پارٹی کو بڑے چاؤ سے اقتدار سونپا لیکن جواب میں کانگریس کی حکومت ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے جو کسی بھی حالت میں مناسب نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر کسی اخبار یا کسی ادارہ سے حکومت کو شکایت ہو تو اسے پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ان اداروں کے سربراہوں کو طلب کرے او ر بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرے۔
گفت و شنید سے بڑے بڑے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ اخبار عوام کی ترجمانی کرتے ہیں اور کوئی بھی ایڈیٹر اپنا شخصی ایجنڈہ نہیں چلا سکتا۔ ہمیں یقین ہے کہ بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے اور کوئی بھی مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی عہدیدار کسی مسئلہ کو اپنی انا بنا لیتا ہے تو وہیں سے لامتناہی نزاعی مسئلے شروع ہوتے ہیں جو دونوں ہی فریقوں کے لئے نقصاندہ ہے۔ اخبار کے ذمہ داروں کو بار بار بلاکر ان کی تضحیک کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ خاص طورپر بیوروکریسی کو اس طرح کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ چیف منسٹر اس معاملہ میں مداخلت کریں گے اور بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ اس نزاعی صورتحال کو ختم کردیں گے۔
بی آر ایس کی سرکار نے پچھلے 10سال کی اپنی حکمرانی کے دوران تلنگانہ کا سارا خزانہ خالی کردیا تھا بلکہ بے انتہا قرضے لے کر تلنگانہ کو مکمل طورپر خلاش کردیا تھا۔ اس صورتحال کے باوجود ریونت ریڈی کی حکومت نے بھلائی کی اسکیمات کو جاری رکھا اور تنخواہیں وقت پر دے کر یہ بتادیا کہ وہ ایک پُر جوش حکومت ہے جو نامساعد حالات کے باوجود کام کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ سماجی انصاف یعنی طبقاتی سروے ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ ریونت ریڈی کے اس کارنامہ کو سارے ہندوستان میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اس سے کانگریس ہائی کمان اور خاص طورپر راہول گاندھی بے حد خوش ہیں۔ عورتوں کے لئے مفت بس کا سفر بھی ایک عظیم کام ہے۔ 15ہزار کروڑ کے صرفے سے نوجوانوں کو اپنا کاروبار کرنے کے لئے مالیہ فراہم کرنے کی اسکیم کی بھی ستائش کی جانی چاہئے۔ چیف منسٹر کا PET Project فیوچر سٹی بھی بہت مقبولیت حاصل کرتا جارہا ہے۔ اس طرح کے ترقیاتی اسکیمات سے ریاستی حکومت کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوگا۔
تالابوں کا تحفظ اور زیر زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کی اسکیمات بھی اچھا اثر چھوڑیں گی۔ اس دوران پرانے شہر میں میٹرو ٹرین کے کام بڑی دھوم دھام سے شروع ہوچکے ہیں جو پرانے شہر کو نئے شہر میں تبدیل کردیں گے۔ پرانے شہر کے 90 فیصد عوام کو امید نہیں تھی کہ اُن کا علاقہ بھی میٹرو ٹرین سے جڑ سکے گا لیکن چیف منسٹر ریونت ریڈی نے اس کو عملی طورپر پورا کرکے یہ ثابت کردیا کہ
عزم گر ہو تو بدل جاتے ہیں طوفان کے رخ
۰۰۰٭٭٭۰۰۰