
بارن(راجستھان): راجستھان کے ضلع بارن کے شاہ آباد ٹاون میں ایک اسکول کے پرنسپل کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ جنہوں نے 12 ویں جماعت کے طلبہ کے وداعی کارڈس پر اردو فقرہ ”جشن الوداع“ تحریر کیا تھا۔ یہ تنازعہ ایک بڑی بحث کا موجب بن گیا، کئی افراد نے الزام عائد کیا کہ یہ مسئلہ اردو کے خلاف گہرے تعصب کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اکثروبیشتر اردو کو مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے۔ مہاتماگاندھی راجکیا ودیالیہ شاہ آباد کے پرنسپل وکیش کمار نے 28 فروری 2025 کو طلبہ کے لئے وداعی تقریب منعقد کی تھی۔ اس تقریب کے دعوت ناموں پر اردو فقرہ تحریر کیا گیا تھا جس پر چند افراد نے تنقید کی اور اسے نامناسب قرار دیا۔
اس معاملہ پر تنازعہ بڑھ گیا جس کے نتیجہ میں وزیر تعلیم، مقامی رکن اسمبلی اور ڈسٹرکٹ کلکٹر کے پاس شکایت کی گئی۔ اس کے جواب میں چیف ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر گینڈا لال رائے گر نے اِس معاملہ کی تحقیقات کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا۔ کئی اردو اسکالرس اور کارکنوں نے اس تنازعہ پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے ہندوستان کے لسانی ورثہ پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے دلیل پیش کی کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے ثقافتی تانے بانے میں پیوست ہے۔ ممتاز مورخ ڈاکٹر شاہنواز عالم نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے کہ اردو کو مستقل طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے جیسے کہ یہ کوئی بیرونی زبان ہو یا فرقہ وارانہ زبان ہو۔
انہوں نے کہا کہ اردو بھی اتنی ہی ہندوستانی ہے جتنی کہ ہندی، تامل یا بنگالی زبان ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ملکر اسے پروان چڑھایا ہے اور اس کا اداب ہندوستان کے مشترکہ ثقافتی ورثہ کا ثبوت ہے۔ ممتاز شاعر اور ادیب جاوید انور نے کہا کہ یہاں مسئلہ صرف وداعی کارڈ کا نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں سے جڑی ہوئی کسی بھی چیز کو نشانہ بنانے کے عظیم تر رجحان کا ایک حصہ ہے۔
لیکن ستم ظرفی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں نے بھی اردو کو پڑوان چڑھایا ہے۔ اردو نثر ہو یا نظم تقاریر ہوں، تنقید ہو، ریسرچ ہو، ڈراما ہو یارپورتاژ، غیرمسلم دانشوروں کی خدمات اس زبان کی صورت گری میں انمول رہی ہیں۔ منشی پریم چند، فراخ گورکھپوری، راجندر سنگھ بیدی سحر، گوپی چند نارنگ اور امریتاپریتم جیسی شخصیتوں کی خدمات اردو ادب کے سیکولر اور شمولیاتی نوعیت کوظاہر کرتی ہیں۔