زیلنسکی-ٹرمپ تنازعہ: ’پیارے یوکرینی دوست، آپ تنہا نہیں ہیں‘ فرانس سمیت کئی ممالک نے یوکرین کی حمایت میں بلند کی آواز

فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون نے کہا کہ ’’ایک حملہ آور ہے: روس۔ ایک متاثر ہے: یوکرین۔ ہمارا 3 سال قبل یوکرین کی مدد کرنا اور روس پر پابندی عائد کرنا صحیح تھا۔ اور ایسا کرتے رہنا صحیح بھی ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div><div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div>
user

یوکرین کے صدر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان حال ہی میں ہوئی تلخ بحث کے بعد یوکرین کو عالمی برادری کی جانب سے زبردست حمایت ملی ہے۔ جمعہ (28 فروری) کو دونوں لیڈران کے درمیان وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کے درمیان شدید بحث ہوئی تھی۔ ٹرمپ اور زیلینسکی کے درمیان ہوئے اس ٹکراؤ نے یوکرین-روس کے تنازعہ پر امریکہ اور یورپ کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے۔ یوکرین کے یورپی شراکت داروں اور دنیا کے کچھ اہم ممالک کے لیڈران نے جہاں زیلنسکی کی حمایت کی ہے، تو وہیں دوسری جانب ’وہائٹ ہاؤس‘ ٹرمپ کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔

28 فروری کو وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ہوئی اس میٹنگ میں ٹرمپ نے زیلنسکی پر روس کے ساتھ امن مذاکرات میں تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ان کی پالیسیاں ’تیسرے عالمی جنگ‘ کو دعوت دے رہی ہیں۔ ٹرمپ کے جواب میں زیلنسکی نے امریکی صدر ٹرمپ اور نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے پہلے ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کی ’سفارت کاری‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔‘‘ اس سخت بحث کے بعد زیلنسکی نے میٹنگ کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا، جسے بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

دونوں صدور کی بحث کے فوراً بعد یورپ کے کئی بڑے ممالک نے زیلنسکی کی حمایت میں آواز بلند کی۔ فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’ایک حملہ آور ہے: روس۔ ایک متاثر ہے: یوکرین۔ ہمارا 3 سال قبل یوکرین کی مدد کرنا اور روس پر پابندی عائد کرنا صحیح تھا۔ اور ایسا کرتے رہنا صحیح بھی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارا سے مراد امریکی، یورپی، کینیڈین، جاپانی اور بہت سے دوسرے ہیں۔‘‘ میکرون نے یہ بھی کہا کہ ’’ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں مدد کی اور کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے تئیں احترام کا اظہار کرتا ہوں جو شروع سے ہی لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے وقار، اپنی آزادی، اپنے بچوں اور یوروپ کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے ٹرمپ کے دونوں فریق کو مساوی قرار دینے کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی ہے۔

جرمنی کے اگلے ممکنہ چانسلر فریڈرک مرز نے بھی اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’پیارے ولودمیر زیلنسکی، ہم اچھے اور مشکل وقت میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں اس خطرناک جنگ میں کبھی حملہ آور اور متاثرہ کے سلسلے میں الجھن میں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ وہیں یوکرین کے پڑوسی پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ’’پیارے یوکرینی دوست، آپ تنہا نہیں ہیں۔‘‘ ایسٹنیا کے وزیر اعظم کرسٹن مشیل بھی کچھ اسی طرح کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا ملک آزادی کی لڑائی میں زیلنسکی اور یوکرین کے ساتھ متحد ہے۔

ان ممالک کے علاوہ سویڈن، لتھوانیا، لِٹویا، چیک جمہوریہ، اسپین، ناروے، نیدرلینڈز اور بلجیم جیسے ممالک نے بھی زیلنسکی اور یوکرین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کیلاس نے کہا کہ ’’آج یہ واضح ہو گیا کہ آزاد دنیا کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت ہے، اور یہ ذمہ داری یورپ کو اٹھانی ہوگی۔‘‘ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’آپ نے جس وقار کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یوکرین کے لوگوں کی بہادری ظاہر ہوتی ہے۔ مضبوط، بہادر اور نڈر بنے رہیں، پیارے ولودمیر زیلنسکی۔ ہم ایک منصفانہ اور مستقل امن کے لیے آپ کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔‘‘

اس درمیان ٹرمپ کی قریبی مانی جانے والی اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے کہا کہ وہ سفارت کاری کو پٹری پر لانے کے لیے یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان سربراہی اجلاس کا مطالبہ کریں گی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’امریکہ، یورپی ممالک اور اتحادیوں کے درمیان فوری طور پر ایک سربراہی اجلاس بلانے کی اشد ضرورت ہے، جس میں اس سلسلے میں کھل کر بات کی جائے کہ ہم آج کے بڑے چیلنجوں سے کیسے نمٹنا چاہتے ہیں۔ اس کی شروعات یوکرین سے ہو، جس کا ہم نے حالیہ برسوں میں مل کر دفاع کیا ہے۔‘‘


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *