لاء کمیشن کیساتھ ایک گفتگو

[]

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

۲۰۱۸ء میں لاء کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں بھارت کے رہنے والوں سے رائے طلب کی تھی، مسلمانوں نے اس موقع پر پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کی تھی، بورڈ کی دعوت پر دستخطی مہم بھی چلائی گئی، اور کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی شناخت واضح کرتے ہوئے یو سی سی کے خلاف رائے دی، اور کہا کہ ہم قانونِ شریعت سے پوری طرح مطمئن ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس میں چار کروڑ کے قریب مسلمان خواتین کے دستخط بھی تھے، یہ اس لئے اہم ہے کہ حکومت مسلم خواتین کی جھوٹی ہمدردی کا نام لے کر ہی مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی بات کہہ رہی ہے؛ مگر افسوس کہ اُس وقت کمیشن نے اس تاریخی دستاویز کو لینے سے بھی انکار کر دیا ، بورڈ نے اس کی اسکیننگ کرائی ہے، اور آج بھی یہ ریکارڈ بورڈ کی تحویل میں موجود ہے؛ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ کمیشن نے فوری طور پر یو سی سی لانے اور نافذ کرنے کی تجویز کو رد کر دیا۔

مگر موجودہ حکومت کی بھی ایک مجبوری ہے، گزشتہ ۹؍ سال کے عرصہ میں وہ کوئی ایسا کام ہی نہیں کر سکی، جس کو پیش کر کے لوگوں سے ووٹ مانگ سکے، گرانی میں کمی ہونے کی جگہ اضافہ ہوا ہے، نہ نوجوانوں کو روزگار ملا، نہ ملک کی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر میں کوئی بہتری آئی، نہ ملک کی مقبوضہ سرحدیں اس کو واپس ملیں، امن وامان کی حالت اتنی بدتر ہو گئی ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو، غرض کہ صورت حال میں بگاڑ تو بہت پیدا ہوگیا ؛ مگر کوئی بہتری نہیں ہوئی، انھوں نے ووٹ کے لئے نفرت پر مبنی کچھ ایجنڈے بنائے تھے، ان میں بھی با بری مسجد کا موضوع ختم ہوگیا، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰؍ بھی ختم ہوگئی، تو آخر حکومت بے چاری کیا کرے، اس کو ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے کوئی تو موضوع چاہئے ؛ اس لئے اب غنیمت سمجھ کر اس نے یو سی سی کا موضوع اٹھایا؛ اس لئے لا کمیشن دوبارہ حرکت میں آگیا اور حکومت کے موقف کو جواز عطا کرنے کے لئے اس نے پھر سے ۲۰۲۳ء میں لوگوں سے رائے طلب کی؛ چنانچہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور بعض دوسری دینی تنظیموں کی ترغیب پر بڑے پیمانہ پر مسلمانوں نے اپنی رائے داخل کی، پھر بورڈ کی خواہش پر لاء کمیشن نے بالمشافہ وضاحت کے لئے بورڈ کے وفد کو مدعو کیا، اور ۲۳؍ اگست کو بورڈ کا وفد لاء کمیشن کے دفتر میں حاضر ہوا، جو بورڈ کے صدر، جنرل سکریٹری اور ترجمان کے علاوہ شیعہ، بریلوی، جماعت اسلامی، بوہرہ نمائندوں، سپریم کورٹ کے دو معزز وکلاء اور دو خواتین پر مشتمل تھا، کمیشن نے گیارہ افراد تک آنے کی اجازت دی تھی، اسی کے مطابق بورڈ کے وفد کی تشکیل عمل میں آئی۔

دوسری طرف چیئرمین کے ساتھ کمیشن کا پانچ رکنی وفد میٹنگ میں شریک ہوا، جس میں زیادہ تر ریٹائرڈ ججز تھے، اللہ کا شکر ہے کہ بورڈ کے وفد نے مرعوبیت کے بغیر نہ صرف اپنا موقف رکھا ؛ بلکہ کئی مواقع پر ایسے سوالات اٹھائے، جن کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس بالمشافہ ملاقات کے لئے کمیشن کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے کہا گیا کہ یہ بات ہمارے لئے بہت عجیب ہے کہ کمیشن نے یو سی سی کا کوئی مسودہ تو پیش نہیں کیا؛ لیکن اس کے بارے میں لوگوں کو اظہار رائے کی دعوت دے دی ، اس سے لوگوں میں یہ تأثر پیدا ہوا کہ حکومت کے دباؤ پر کمیشن نے مناسب عمل کو انجام دئیے بغیر جلد بازی میں اس مسئلہ پر رائے طلب کرلی ہے، اس کا اُن حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں تھا؛ البتہ وہ اس بات کو بار بار دہراتے رہے کہ آپ حضرات اس مسئلہ کو کسی خاص مذہب کی نظر سے نہ دیکھئے۔

انھوں نے اپنی بات ’’متعہ ‘‘ سے شروع کی، ہمارے شیعہ نمائندہ نے اس سلسلہ میں وضاحت کی، اور وفد کے ایک رکن جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، نے کہا کہ حکومت اور عدالت نے تو ’’لیو اِن ریلیشن شپ‘‘ یعنی بغیر نکاح کے دو بالغ مردو عورت کو شوہر وبیوی کی طرح ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ہے، تو پھر متعہ پر اعتراض کرنے کا آپ کو کیا حق پہنچتا ہے؟ کمیشن کے نمائندوں کا جواب صرف خاموشی تھا، پھر انھوں نے کہا کہ نکاح حلالہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ اُن سے کہا گیا کہ حلالہ کے نام سے کوئی نکاح شریعت میں ہے ہی نہیں، نہ قرآن میں حلالہ کا کوئی ذکر ہے نہ حدیث میں، اور نہ ہماری فقہی کتابوں میں نکاح حلالہ کا کوئی عنوان ہے، آپ حضرات نے خود بھی مسلم پرسنل لا پر قانونی کتابیں پڑھی ہوں گی، اگر نکاح حلالہ کے نام سے شریعت میں کوئی نکاح ہے تو آپ بتائیے، وہ اس کا بھی کوئی جواب نہیں دے سکے۔

پھر اُن کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ لوگ نکاح کی عمر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا بالغ ہونے یعنی ۱۸؍ سال عمر ہونے سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں اپنے نکاح کر سکتے ہیں، انہیں بتایا گیا کہ حقیقی طور پر بالغ ہونا الگ چیز ہے، اس کا تعلق بعض جسمانی تبدیلیوں سے ہے اور ۱۸؍ سال کی عمر ایک الگ چیز ہے، یہ تو آپ نے کسی دلیل اور منطق کے بغیر فرض کر لیا ہے کہ اسی عمر میں بچے بالغ ہوتے ہیں، کتنی ہی مثالیں مل جائیں گی کہ اس عمر سے پہلے ہی لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں، یا لڑکے حمل کا سبب بن جاتے ہیں، اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کا تعلق عمر سے نہیں ہے، عاقدین یا ان کے اولیاء کی رضامندی سے ہے، لڑکوں اور لڑکیوں کا کسی بھی عمر میں نکاح ہو سکتا ہے؛ لیکن بہتر ہے کہ جس عمر میں وہ نکاح کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق ہو جائیں، اس عمر میں نکاح کر لیں، اس کا تعلق سماج میں اخلاقی اقدار کو باقی رکھنے سے بھی ہے، اور شخصی آزادی سے بھی ہے، ہر عمل میں حکومت کا دخیل ہونا انسان کی شخصی آزادی کو مجروح کرتا ہے، وفد کے بعض شرکاء نے ڈاٹا کی روشنی میں یہ بات بھی سمجھائی کہ اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے، جوں جوں لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بڑھے گا اور لڑکیاں ملازمت کے راستے تلاش کریں گی ، خود بخود کمسنی میں نکاح کے واقعات کم ہوتے جائیں گے۔

دو گھنٹے کی اس نشست میں بہت سے مسائل زیر بحث آئے، ان کو طلاق کے بارے میں بتایا گیا کہ اس پر حقیقت پسندی کے ساتھ غور کرنا چاہئے، ہندو میرج ایکٹ کے تحت جب عورتیں طلاق کے لئے عدالت جاتی ہیں تو ان کا مسئلہ حل ہونے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں، پچھلے دنوں ایک ہائی کورٹ سے ۳۲؍ سال پر بیوی کو طلاق کا فیصلہ حاصل ہوا، یہ خبر اخبارات میں بھی شائع ہو چکی ہے، اتنے عرصے تک مردو عورت دونوں کا تنہا زندگی گزارنا نہایت تکلیف دہ بات ہے؛ اس لئے اسلام میں بلا ضرورت طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن ضرورت کے موقع پر طلاق کا ایک آسان راستہ بھی نکالا گیا ہے؛ کیوں کہ کوئی گھر کتنا ہی خوبصورت ہو، اگر اس میں اندر آنے کا راستہ تو ہو؛ مگر باہر نکلنے کا راستہ نہ ہو تو وہ ایک خوبصورت جیل تو ہو سکتا ہے، آرام دہ مکان نہیں ہو سکتا؛ اس لئے اسلام نے علیحدگی کے لئے تین راستے رکھے ہیں، شوہر بھی طلاق دے سکتا ہے، عدالت کے ذریعہ بھی رشتۂ نکاح ختم ہو سکتا ہے اور اگر عورت نے نکاح کے وقت یہ شرط لگادی ہو کہ اس کو یک طرفہ طور پر رشتہ ختم کرنے کا حق حاصل ہوگا، جس کو ’’تفویض طلاق ‘‘ کہتے ہیں، تو بیوی بھی رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کی مجاز ہوگی، کمیشن کو بتایا گیا کہ طلاق کا تصور درا صل نکاح سے متعلق ہے، دنیا کے کسی قانون میں نکاح کے بعد عورت کے لئے رشتہ نکاح سے باہر نکلنے کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے، گویا عورت ایک درجہ میں شوہر کی پراپرٹی بن جاتی ہے؛ لیکن اسلام میں نکاح ایک معاہدہ ہے اور شوہر وبیوی اس معاہدہ میں دو فریق ہیں، اور تمام ہی معاہدات میں معاہدہ کو ختم کرنے کی گنجائش باقی رکھی جاتی ہے۔

کمیشن کی طرف سے گود لینے کا مسئلہ بھی اُٹھایا گیا، اور کہا گیا کہ اسلام میں تو یتیم اور نادار بچوں کی کفالت کی ترغیب دی گئی ہے ؛ اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، یہ ایک اختیاری عمل ہے، گود لینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا، بورڈ کے وفد نے وضاحت کی کہ اسلام کی نظر میں نکاح ایسا رشتہ ہے جو زبان کے بول سے وجود میں آتا ہے؛ لیکن اولاد اور والدین کا رشتہ ایک فطری اور قدرتی رشتہ ہے، جو نکاح کے واسطے سے وجود میں آتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ انسان کسی کو کہہ دے کہ تم میرے بیٹے ہو اور وہ کہہ دے کہ تم میرے باپ ہو اور صرف الفاظ کے اس تبادلے سے ان میں باپ بیٹے کا تعلق قائم ہو جائے، یہ پوری طرح فطرت کے خلاف ہے؛ اس لئے شریعت اس کو قبول نہیں کرتی؛ البتہ کسی ضرورت مند کی کفالت اور غریبوں کی مدد اسلام میں نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے، یہاں تک کہ ہر صاحب حیثیت پر اپنی دولت کا ڈھائی فیصد غریبوں پر خرچ کرنا ضروری ہے، اس میں اور گود لینے میں بڑا فرق ہے، اور یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ گود لینے کا عمل مکمل طور پر اختیاری ہے، ایک شخص اپنے اختیار سے گود لیتا ہے؛ لیکن اس سے اس کے دوسرے بچوں کا اور متعلقین کا حق متأثر ہوتا ہے، جب کہ اُن کا اختیار اس میں شامل نہیں ہوتا۔

بیٹی کے حق میراث کا مسئلہ بھی لاء کمیشن کے ارکان کی طرف سے بار بار اُٹھایا جا رہا تھا، اور وہ مساوات کی بات کر رہے تھے کہ بیٹا اور بیٹی کا حق برابر ہونا چاہئے، وفد نے ان پر واضح کیا کہ اسلام بنیادی طور پر انصاف (Justice )کا قائل ہے، اور اس نے حقوق اور ذمہ داریوں کو متعین کرتے ہوئے قدم قدم پر اس کا خیال رکھا ہے، کبھی مساوات وبرابری بھی انصاف کے تقاضوں میں شامل ہوتی ہے، وہاں برابری ضروری ہوگی، اور کہیں انصاف کا تقاضا ہوتا ہے کہ سماج اور خاندان کے دو افراد کے حقوق اور ذمہ داریوں میں فرق رکھا جائے، وہاں برابری ایک نامنصفانہ عمل ہوگا، وفد میں شامل بہنوں نے خود یہ بات پوری قوت کے ساتھ کہی کہ شریعت میں ساری ذمہ داریاں بیٹے پر ہیں، بیوی کی کفالت، ماں باپ کی کفالت، بعض حالات میں نابالغ بھائیوں اور غیر شادی شدہ بہنوں کی کفالت اور خاندان کے دوسرے بزرگوں کی کفالت بیٹوں کے ذمہ ہے؛ لیکن لڑکیوں پر کوئی ذمہ داری نہیں رکھی گئی، عورتیں اپنی دولت کی پوری پوری مالک ہیں، شوہر اس میں کچھ تصرف نہیں کر سکتا، غرض کہ وفد نے مدلل طور پر اور پوری قوت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔

ہمارے وفد کے ایک رکن جو سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ہیں، نے صاف طور پر کہا کہ حکومت قبائلیوں کو اور مختلف مذہبی اکائیوں کو یو سی سی سے استثناء دینے کو تیار ہے اور اس میں ہندو میریج ایکٹ میں مختلف وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر رواج اس کے خلاف ہو تو ان پر یہ قانون نافذ نہیں ہوگا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے، کیایہی جمہوریت کا اور دستور میں دئیے گئے تحفظات کا تقاضا ہے؟ اگرچہ وہ اس سوال پر بپھر گئے؛ لیکن ان سے اس کا کوئی جواب بن نہیں پایا۔

اخیر میں صدر بورڈ کی حیثیت سے میں نے عرض کیا کہ آپ حضرات اس مسئلہ میں مسلمانوں کی مجبوری کو سمجھئے، ہندو میریج ایکٹ ویدوں پر مبنی نہیں ہے، اور یہ مقدس کتابوں سے نہیں بنائے گئے ہیں؛ بلکہ کچھ لوگوں نے اپنی سوچ اور اپنی سمجھ سے یہ قانون بنایا ہے، اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے بنایا ہے، ان کو اس میں تبدیلی کا بھی اختیار ہے، قانون شریعت کا معاملہ اس سے مختلف ہے، مسلم پرسنل لا کا ایک حصہ قرآن وحدیث پر مبنی ہے، جس کا تعلق ہمارے رواج سے نہیں ہے؛ بلکہ ہمارے عقیدہ اور یقین سے ہے؛ اس لئے اس میں اگر پوری دنیا کے مسلمان مل کر بھی کوئی تبدیلی لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے، دوسرا حصہ اجتہاد پر مبنی ہے، جس میں شریعت کے اصولوں کو سامنے رکھ کر فقہاء نے رائے قائم کی ہے، اس میں حالات اور مصالح کی تبدیلی سے کہیں کہیں تبدیلی کی جا سکتی ہے؛ لیکن آپ لوگ جن مسائل کو اُٹھا رہے ہیں، یہ سب براہ راست قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، جن کی وضاحت بورڈ نے یو سی سی پر اپنے تفصیلی جواب میں داخل کیا ہے، کمیشن کے چیئرمین نے پوچھا کہ دوسری قسم کے قوانین کون سے ہیں، جن میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی ہو سکتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی ایک مثال ۱۹۳۹ء کا قانون فسخ نکاح ہے، اس میں بیشتر احکام اجتہاد پر مبنی ہیں، اور خود ہندوستان کے علماء بھی اس میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔

اس موقع پر کمیشن کے چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور مصر میں تو بعض قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ اول تو جو تأثر دیا جاتا ہے وہ غلط ہے، ان ملکوں میں زیادہ تر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بعض مسائل میں ایک فقہی مسلک کی جگہ دوسرے فقہی مسلک سے استفادہ کیا گیا ہے، دوسرے: میرے لئے آپ کی یہ بات بہت افسوسناک ہے، ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، جس میں فرد کی آزادی کا عہد کیا گیا ہے، اور آپ پاکستان اور مصر کے ڈکٹیٹروں کی مثال دیتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کا عمل ہمارے لئے نمونہ بن سکتا ہے؟ ان سے یہ بات بھی کہی گئی کہ جن لوگوں کے لئے قانون بنایا جائے خود ان کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے، نہ یہ کہ کچھ لوگ اپنی سمجھ کے مطابق ان پر کوئی قانون تھوپ دیں، آخر حکومت نے مختلف طبقات کو مختلف قوانین سے اسی لئے تو الگ کیا ہے کہ ان پر ان کی پسند کے خلاف قانون مسلط نہ کیا جائے، تو پھر مسلمانوں کے ساتھ نامنصفانہ رویہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے، اور دو قوموں کیلئے الگ الگ پیمانے کیوں رکھے جاتے ہیں؟

بہر حال طویل مذاکرہ کے بعد نشست ختم ہوئی، حکومت کی نیت کیا ہے، یہ تو اللہ کو معلوم ہے؛ لیکن بورڈ کے وفد نے مدلل طور پر اور پوری قوت کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ، اس وفد میں شامل مختلف مسالک کے نمائندوں کا تعارف کراتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی گئی کہ ان مسائل پر مسلمان پوری طرح متفق ہیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، بہر حال حکومت جو بھی قدم اُٹھائے مسلمانوں کو طے کرنا چاہئے کہ وہ ہر حال میں شریعت پر قائم رہیں گے، نہ کوئی خوف ان کو اس موقف سے ہٹا سکے گا اور نہ کوئی طمع ان کے قدم پھسلا سکے گی۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *