ملک میں بڑھتی نفرت و غربت کا عتاب – انڈیا ہیٹ لیب کے انکشافات اور گھٹتی غربت کا دعویٰ ایک فریب

تحریر:سید سرفراز احمد

 

ملک میں آج کے حالات کے تناظر میں اگر آپ کسی شخص کو روک کر پوچھیں گے کہ آپ کن حالات سے دوچار ہیں یا کن مسائل میں گھرے ہوۓ ہیں تو یقیناً کوئی شخص کہے گا کہ میں معاشی بحران سے گذر رہا ہوں کوئی کہے گا کہ میں پہلے متوسط درجہ میں شامل تھا اب غریبی سے دو چار ہوں کوئی کہے گا کہ مہنگائی سے امور خانہ داری کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں کوئی کہے گا سماج میں بڑھتی منافرت نے جینا محال کردیا ہے اسی طرح کے اور بھی بے شمار مسائل آپ کو زمینی سطح سے سننے کو ملیں گے دراصل یہ وہ حقائق ہیں جو اس وقت اس ملک کی ابتر صورت حال کی حقیقی تصویر پیش کررہے ہیں ایسے مسائل سے نہ صرف ملک کا ایک طبقہ بلکہ پورا ملک متاثر ہے ہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ان مسائل سے سب سے ذیادہ پریشان حال ہے سوال یہ ہے کہ ان تمام مسائل و حقائق کے پس پردہ زمہ دار کون ہے؟

 

گذشتہ پیر کو امریکہ کے واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارہ انڈیا ہیٹ لیب کی ایک رپورٹ جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہمارے ملک میں2024 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں 74 فیصد اضافہ ہوا ہے جاری کردہ رپورٹ میں گزشتہ سال یعنی 2024 میں 1165 نفرت انگیز بیانات درج کیئے گئے جو سال 2023 میں 668 نفرتی بیانات درج کیئے گئے تھے ان نفرتی بیانات میں اترپردیش وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سرفہرست ہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ یوگی نے سال 2024 میں 86 اور نریندر مودی 63نفرت انگیز تقاریر کی ہے ان تقاریر کا بیش تر حصہ ڈبل انجن سرکار ریاستیں جن میں اترپردیش،مہاراشٹر، اور مدھیہ پردیش شامل ہیں جہاں جملہ نفرت انگیز تقاریر کا نصف حصہ ان تین ریاستوں میں ریکارڈ کیا گیا۔

 

یہ نفرت انگیز تقاریر سیاسی جلسوں ریالیوں مذہبی تقریبات و دیگر اہم تقریبات کے دوران کی گئی جس میں بی جے پی،وی ایچ پی،بجرنگ دل کے قائدین شامل ہیں انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق مئی 2024 میں نفرت انگیز تقاریر کے سب سے ذیادہ 269 واقعات رپورٹ ہوئے چونکہ اس وقت ملک کے لوک سبھا انتخابات کا دورانیہ چل رہا تھا یاد رہے کہ اس دوران نفرت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا خود وزیراعظم نے راجستھان کے بانسواڑہ میں مسلمانوں کو درانداز اور ذیادہ بچے پیدا کرنے والے کہا تھا رپورٹ میں بتایا گیا کہ نریندر مودی کی اس تقریر کے بعد نفرتی تقاریر میں مزید تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

 

یہی نہیں بلکہ نفرت کو ہوا دینے کے لیئے سوشیل میڈیا ایکس یوٹیوب فیس بک انسٹا کا بھی بھر پور سہارا لیا جاتا رہا خود حکمران جماعت کے وزراء نے نفرتی تقاریر کو سوشیل میڈیا پر پیش کیا 2024میں 1165 نفرتی تقاریر میں 995 تقاریر کو سوشیل میڈیا پر پیش کیا گیا جس میں سب سے ذیادہ ویڈیوس فیس بک پر شیئر کی گئی جب کہ فیس بک ہو یا دیگر سوشیل میڈیا پیلٹس فارمس سماج میں نفرت پھیلانے والوں کے ویڈیوس کو انتباہ دیتے ہوۓ اپنے قواعد کی خلاف ورزی پر ویڈوس کاٹ دیتے ہیں اور اکاؤنٹس کچھ دن تک بند بھی کردیئے جاتے ہیں لیکن اس 995 نفرتی ویڈیوس میں سے بڑی مشکل سے دو چار ویڈوس بھی کٹ نہیں کیئے گئے تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرتی تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیاسی اور مذہبی قائدین مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کررہے ہیں جس میں اکثریتی طبقے کو ہتھیار اٹھانے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے مذہبی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے مسلمانوں کے رہائشی املاک کو زمین بوس کرنے ہجومی تشدد کے حملے کرنے کے علاوہ دیگر میں اکسایا جاتا ہے۔

 

ایک طرف نفرت کی ہوا آہستہ آہستہ بھارت کے تکثیری سماج میں خلاء پیدا کر رہی ہے وہیں پر دوسری طرف اس ملک کی معاشی ابتری متوسط طبقے کی زندگیوں کو اجیرن بناکر رکھ دیا ہے رپورٹ کے حوالے سے اگر بات کی جاۓ تو بتایا جارہا ہے کہ بھارت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہےوہ آئندہ چند برس میں پانچ ٹریلن ڈالر کی معیشت بننے جا رہا ہے جو دنیا کی بڑی معیشتوں میں انڈیا کی معیشت سب سے تیزی سے فروغ پا رہی ہے بھارت کا ہدف 2030 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننا ہے جیسا کہ کئی ایک تقاریب کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جارہا ہے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے 2006 سے 2021 تک 15 برس کی مدت میں 41 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

 

حالیہ لوک سبھا اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا کہ پچھلے پانچ سالوں میں 25 کروڑ افراد کو خط غربت سے اوپر لایا گیا اور نل سے جل کے بارہ کروڑ کنکشن دینے کا بھی دعوی کیا لیکن رپورٹ کے اعداد و شمار اور وزیراعظم کے دعوؤں کے درمیان تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو رہی ہے بین الاقوامی ادارہ آکسفیم نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہےاس میں مزید کہا گیا تھا کہ 2012 سے 2021 تک دس برس کی مدت میں جتنی آمدنی کا حصول ہوا اس کا 40 فیصد حصہ آبادی کے صرف ایک فیصد افراد کے حصے میں گیا۔

 

ایک اور پورٹ کے مطابق بھارت میں سال 2020 میں 102 ارب پتی تھے یہ تعداد 2022 میں بڑھ کر 166 ہو گئی تھی آکسفیم کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ غریب بھارت میں بستے ہیں جن کی تعداد تقریباً 23 کروڑ بتائی گئی تھی سب سے زیادہ غربت دلت اورپسماندہ ذاتوں میں ہے 2022 میں ایک بین الاقوامی ادارہ مالیاتی فینانشل سروس کمپنی نے کے سروے کے مطابق بھارت میں 80 فیصد افراد یومیہ صرف 163 روپیئے ہی خرچ کرتے ہیں دراصل بھارت کا امیر مزید امیر بن رہا ہے متوسط طبقہ غریب بن رہا ہے اور غریب مزید غربت میں غرق ہورہا ہے نیتی آیوگ ہو یا برسر اقتدار جو ملک میں گھٹتی غربت کا کھوکھلا دعوی کرتے ہیں جب کہ زمینی صورت حال اس سے بالکل الگ ہی ہے۔

 

آنجہانی ڈاکٹر وید پرتاب لکھتے ہیں کہ کچھ معاشی امور کے ماہرین یہ تاثر دیتے ہیں کہ بھارت میں معاشی بحران کا بہت پہلے سے ہی آغاز ہوچکا تھا پھر کووڈ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے جو درست نہیں ہے بھارت میں معیشت کے زوال کی ابتداء 2016 میں اس وقت ہوئی تھی جب حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا پھر سرکار نے جی ایس ٹی کا نیا ٹیکس نافذ کیا اس نے عام آدمی کی معاشی حالت کو شدید طور پر متاثر کیا نوٹ بندی میں ایک کمال کا جادو یہ تھا کہ عوام کو کالا دھن لانے کا وعدہ دلاکر عوام کے پاس موجود روپیہ بٹور کے مزید کالے دھن میں یعنی امیروں کے حوالے کیا گیا جس سے امیروں کی دولت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں پچھلے پانچ سال میں امیر ترین لوگوں کی دولت میں39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 

نفرت ہو یا غربت ان دونوں نے ملک کی سالمیت اور معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے نفرت کی سیاست نے فرقہ پرستی آڑ میں تکثیری سماج میں پھوٹ ڈالنے کا کام کیا ہے جو ایک اعصابی کھیل کی طرح ہے جو ریوڑی کے طور پر اکثریتی فرقے کو ہندو راشٹر کے خواب کو ان کے ذہنوں میں کچھ اس طرح پیوست کردیا گیا کہ وہ پوری طرح اند بھکت بن گئے ہیں جو صحیح اور غلط میں فرق کی پہچان سے بھی معذور ہوچکے ہیں حد تو یہ ہے کہ وہ خط غربت کو بھی برداشت کرنے پر رضا مند ہیں لیکن ایسا پورا سماج بھی نہیں ہے اس بات پر یقین رکھیئے کہ ایک دن ان تمام کی آنکھیں کھلے گی اور اس دن اند بھکتی کا نشہ پوری طرح سے اتر جاۓ گا بہر کیف جب تک حقائق سامنے لانے والے ادارے رہیں گے تب تک سچ اور انصاف کی جیت کی امید رکھیئے چونکہ نفرت کا زور و شور ایک دن پوری طرح سے دم توڑ کر ہی رہے گااور وزیر اعظم کا دعوی،کہ ملک سے غربت گھٹ رہی ہے جو سواۓ ایک فریب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *