ایس.ایم.عارف حسین
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالی نے مرد یعنی آدم علیہ ص کی پسلی سے عورت یعنی حوا علیہ ص کو پیدا کیا ہے اسی کا نتیجہ ہیکہ فطری طور پر انسان ایک دوسرے سے انتہائی محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہیکہ ایک باپ اپنے بیٹے، بیٹیوں سے بے انتہا محبت کرتاہے۔انکی معمولی سے معمولی خوشی میں اندرونی طور پر خوش ہوتا ہے اور ذرہ سی تکلیف میں اندرونی دکھ محسوس کرتا ہے جسکا ثبوت اسکی آنکھوں سے بہتے وہ خاموش آنسوں ہوتے ہیں جسکا طبعیی طورپر اظہار تو نہیں ہوتا پر یہ راست اللہ تک ضرور پہونچتے ہیں۔
”اداس آنکھوں سے آنسوں نہیں نکلتے ::
یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں“
جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تب اسکے ماں باپ کو بےانتہا خوشی ہوتی ہے. جوں جوں یہ بچہ رینگنا اور چلنا شروع کرتا ہے ماں باپ کو اسکے مزید بڑے ہونے یعنی جوان ہونیکی امید آگے بڑھتی ہے. جب ایک بیٹی بلوغیت کو پہونچتی ہے تب اسکو ایک شریف گھرانے کے باکردار لڑکے کے ساتھ شادی کرانیکی جستجو لگی رہتی ہے۔ دنیا کا ہر باپ چاہے خود انپڑھ ہی کیوں نہ ہو – مزدوری ہی کیوں نہ کرتا ہو- وقت کا بد کردار فرد ہی کیوں نہ ہو اپنی اولاد کو اچھے سے اچھی تعلیم و تربیت دلانا چاہتا ہے جو اسکی عین ذمہداری ہوتی ہے.یہ ایک حقیقت ہیکہ ایک باپ اپنی اولاد کو تین وقت کی روٹی مہیا کرنے،خاص کر بیٹی کی میعاری شادی بیاہ کرنے اولاد کیلیےاچھی تعلیم کا انتظام کرنے کبھی چبھتی دھوپ میں مزدوری کرتا ہے تو کبھی مال کے انتظام میں کسے کے پاس قرض لینے کیلیے انکے پاوں پر گرجاتا ہے جسکا علم اولاد کو قطعی نہیں ہوتا۔
جب بیٹے، بیٹیاں پڑھ لکھ کر قابل بن جاتے ہیں تب باپ کو ایک جانب ذہنی خوشی ملتی ہے تو دوسری جانب انکی معاشی مضبوطی کیساتھ اچھے گھرانے میں شادی کروانیکی فکر شروع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ ماں اور باپ دونوں اپنی اولاد سے بےانتہا پیار کرتے ہیں. ایک ماں کے ظاہری برتاو سے دنیا کو اسکی محبت کا پتہ چل جاتا ہے پر ایک باپ کا پیار دنیا کو نظر نہیں آتا چیونکہ وہ اسکے احساسات میں چھپا ہوتا ہے جو حرکات سے ظاہر نہیں ہوتا. اسی لیے دنیا کو ایک باپ کے پیار کا اندازہ نہیں ہوتا پر دنیا کا ہر باپ اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ ایک باپ کا اپنی اولاد سے پیار ایک ماں کے پیار سے کہیں ذیادہ ہوتا ہے.اس کیفیت کا ثبوت اس بات سے ملتا ہیکہ جب بیٹے کسی معاشی مشکلات جیسے ملازمت کی تلاش یا کسی تجارت میں نقصان کا سامنا کرتے ہیں اور جب بیٹیاں شوہر اور سسرالی افراد کیجانب سے جسمانی و ذہنی تکالیف کا سامنا کرتی ہیں تب باپ اندرونی طور پر خوب روتا ہے اگرچیکہ ظاہری طورپر اسکے آنسوں نہیں بہتے پر اسکے سینہ سے سسکیاں ضرور نکلتی ہیں جسکی آواز کو زمانہ تو سن نہیں پاتا پر اللہ تعالی ضرور سنتا ہے اور نتیجہ میں باپ کی ارمانوں کو پورا کرتا ہے.
اولاد کی ہر تکلیف چاہے کمائ سے متعلق ہو یا صحت سے متعلق ہو یا معاشرہ کی جانب سے انکی عزت پر راست یا پیچھے سے انگلی اٹھائ جاتی ہے تب ایک باپ کو ذہنی ٹھیس پہونچتی ہے.ایسے موقع پر باپ الفاظ کے استعمال سے ان افراد کے لیے بد دعا نہ بھی کرے پر اسکے سینہ سے اٹھنے والی آہ اللہ تعالی تک ضرور پھونچتی ہے جسکے نتیجہ میں انگلی اٹھانے والے افراد اس دنیا میں بدترین حالات کا سامنا کرتے ہیں اور نتیجہ میں ان افرادکی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہیکہ اولاد خاصکر بیٹے جب مالی اعتبار سے ترقی کرتے ہیں یا اپنی ملازمت میں ترقی پاتے ہیں اور انہیں اعزازات سے نوازہ جاتا ہے تب معاشرہ کیجانب سے عزت افزائ ہوتی ہے اسپر ایک باپ کو دلی خوشی ہی نہیں ملتی بلکہ اس کا سینہ فخر سے اونچا ہوتا ہے جسکا وہ حقدار ہوتا ہے۔
جب ایک بیٹی شادی کے بعد ماں باپ کے گھر سے وداع ہوتی ہے تب ایک باپ دنیا والوں کے سامنے خوشی کا اظہار تو کرتا ہے پر بیٹی کی جدائی سے اندرونی طور پر ٹوٹ جاتا ہے جسکے نتیجہ میں آنسوں بہتے ہیں پر وہ دکھائ نہیں دیتے چیونکہ باپ انکو پی جاتا ہے تاکہ بیٹی کی ہمت نہ ٹوٹے.جب بھی ایک بیٹی ماں- باپ کے گھر آتی ہے تب ماں کے ساتھ ساتھ بالخصوص باپ کو نظریاتی و روحانی خوشی ملتی جسکا ثبوت ایک باپ کی آنکھوں میں دفن آنسوں ہی ہوتے ہیں جسکو اللہ تعالی محسوس کرتا ہے.جب جب بیٹیاں گھر سے وداع ہوتی ہیں ایک باپ اپنی بیٹیوں کو اپنے سینہ سے لگا لیتا ہے اور انکی پیشانی کو بوسہ دیکر وداع کرتا ہے جبکہ اسکی آنکھوں سے بےساختہ آنسوں بہے بغیر نہیں رہتے.یقیناً یہ آنسوں اللہ تعالی تک پہونچکر بیٹی و باپ کی تسلی کا سامان کرتے ہیں.اسکے علاوہ گھر سے وداع ہونے والی بیٹی کی معمولی سے معمولی تکلیف اور خوشی بھی ایک باپ کو آنسوں بہانے پر مجبور کرتی ہے جسکا سامنا دنیا کی ہر بیٹی کا باپ کرتا ہے.یہ کہنا درست ہوگا کہ “آنسووں کا بہنا” بھی اللہ تعالی کیجانب سے “ایک عظیم نعمت” ہے ورنہ انسان اندرونی طور پر گھٹ گھٹکر دم توڑدیتا.
ھمارے پیغمبر حضور صلعم کا اپنی بیٹی سے بےانتہا محبت کا وہ عمل کہ جب بھی آپ صلعم باہر سے گھر تشریف لاتے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ رض کو یاد کرتے اور گلے لگاتے اور جب بیٹی گھر سے رخصت ہوتی ازخود دروازہ تک جاکر رخصت فرماتے جو “ساری انسانیت” کیلیے “عملی تربیت” ہے۔دنیا کی ان ماؤں اور خاصکر باپوں کا کیا حال ہوگا جنکی بیٹی خدا نہخواستہ طلاق کا سامنا کرتی ہے.یہ حقیقت ہیکہ ایک مطلقہ بیٹی کا باپ اپنی دولت لٹاکر اور عاجزی والے برتاو سے بیٹی کی خوشی واپس لانا چاہتا ہے.زمانہ گواہ ہیکہ ایک باپ اپنی بیٹی کی خوشی کو لوٹانے اور معاشرہ میں عزت کی حفاظت کیلے اپنی جان تک کو داؤ پہ لگا چکا ہے اور لگاتا رہیگا جو خونی رشتہ کی محبت کا عین ثبوت اور ایک فطری امر ہے.جب بیٹے روزگار حاصل کرنیکے لیے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور کا سفر کرتے ہیں تب ماں باپ کو انکی وداعی اور دوری دن رات ستاتی ہے پر یہاں اللہ تعالی کا فضل کام کرتا ہے جسکے نتیجہ میں اولاد سے دوری کو برداشت کرنیکی طاقت ملتی ہے۔
احساس کرنیکی ضرورت ہیکہ ان ماں.باپ کے دلوں کا کیا حال ہوگا جنکی نظروں کے سامنے انکی اولاد اللہ کو پیاری ہوچکی ہے.ایسی کیفیت میں ماں باپ طبعیی طور پر تو زندہ نظر آتے ہیں پر ذہنی طور پر وہ ضرور مردہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہیکہ دنیا کے ہر ماں باپ کو انکی اولاد کی خوشیاں دیکھنیکا موقع عنایت فرماے اور اولاد کو” آنکھوں کی ٹھنڈک” کا زریعہ بناے جسکی طلب کا ذکر” قرآنی دعا” میں موجود ہے. خدانہخواستہ خدانہخواستہ اولاد کو دنیاوی تکالیف کا سامنا ہوتو ماں باپ کو صبرِجمیل عطا کرے.آمین۔
”حیات ایک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید ::
خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسوں بنکے آتی ہے“
ایس.ایم.عارف حسین اعزازی خادمِ تعلیمات و سابقہ و موجودہ عہددار.تنظیمات.مشیرآباد.حیدرآباد.
(عارضی قیام. ریاض.سعودی عربیہ)
.سل نمبر:9985450106