بنگلورو: کرناٹک پولیس نے چہارشنبہ کے دن ایک عالم ِ دین کی تلاش شروع کردی جن پر ایک قابل ِ اعتراض سوشل میڈیا پوسٹ کے معاملہ میں اشتعال انگیز تقریر کے ذریعہ میسورو سٹی کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کے لئے بھیڑ کو اُکسانے کا الزام ہے۔
ذرائع کے بموجب عالم ِ دین کا نام مفتی مشتاق مقبولی بتایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی جس پوسٹ پر اعتراض ہوا تھا وہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی ہار سے متعلق تھی۔ پولیس کو مفتی مشتاق مقبولی کا ویڈیو کلپ جو وائرل ہوا‘ مل گیا ہے۔
اس کلپ میں انہیں انتہائی اشتعال انگیز بیان دیتے اور لوگوں کو تشدد کے لئے اُکساتے دیکھا جاسکتا ہے۔ پولیس نے تشدد بشمول سنگباری میں ملوث 50 تا 60 افراد کی نشاندہی کرلی ہے۔ انہیں پوچھ تاچھ کے لئے حراست میں لیا جائے گا۔ ملزمین کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعہ ہوئی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سنگباری کرنے والے زیادہ تر لوگ مقامی ہیں۔
کیس کی تحقیقات کے لئے اسسٹنٹ کمشنر پولیس(اے سی پی) کی سربراہی میں خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پرمیشور نے منگل کے دن کہا کہ میسورو کے اُدئے گری پولیس اسٹیشن پر سنگباری کے لئے اُکسانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا جاچکا ہے۔
پولیس نے عام آدمی پارٹی کی ہار کا جشن مناتے ہوئے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ کرنے والوں کو گرفتار کرلیا تھا تاہم تقریباً 200لوگوں کی بھیڑ پولیس اسٹیشن کے قریب جمع ہوگئی اور مطالبہ کرنے لگی کہ ملزمین کو ان کے حوالہ کردیا جائے۔ بھیڑ نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا۔ پولیس کو صورتِ حال پر قابو پانے آنسو گیس شل برسانا پڑا۔ قبل ازیں کرناٹک پولیس نے متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلہ میں جس میں ایک مخصوص فرقہ کے خلاف تبصرہ کیا گیا تھا‘ ایک شخص کو حراست میں لے لیا۔
اس پوسٹ کی وجہ سے میسورو میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ میسورو کے کلیان نگر کے رہنے والے ملزم نے قائد اپوزیشن راہول گاندھی‘ سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو اور اروند کجریوال کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک پوسٹ کی تھی۔ اس نے اس پوسٹ میں ایک مخصوص مذہبی گروپ کے خلاف بھی اشتعال انگیز فرقہ وارانہ باتیں کہی تھیں۔
یہ پوسٹ پیر کی شام سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ پیر کی رات دیر گئے اقلیتی فرقہ کا ایک گروپ اُدئے گری پولیس اسٹیشن کے سامنے جمع ہوگیا اور مطالبہ کرنے لگا کہ ملزم کو اس کے حوالہ کردیا جائے۔ پولیس نے بھیڑ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اس نے علماء کی بھی مدد لی جنہوں نے لوگوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی لیکن صورتِ حال بگڑگئی اور بھیڑ پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے لگی۔ ہجوم نے ڈی سی پی کی سرکاری گاڑی پر بھی حملہ کردیا۔
صورتِ بے قابو ہونے پر پولیس نے پہلے لاٹھی چارج کیا اور بعد میں آنسوگیس شل برسائے۔ مزید پولیس فورس طلب کی گئی۔ سینئر پولیس عہدیداروں نے مقامی سیاسی قائدین کے ساتھ مل کر بھیڑ سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ملزم کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وہ بڑی مشکل سے احتجاج ختم کرانے میں کامیاب رہے۔ پولیس نے صورتِ حال پر قابو پالیکن علاقہ میں کشیدگی برقرار ہے۔