مہر نیوز ایجنسی کے نمائندے کے مطابق، آج صبح انقلاب اسلامی کی چھالیسویں سالگرہ کے موقع پر ایوان صدر میں ریاست کے تینوں ستونوں کے سربراہان ایک مشترکہ نشست میں شریک ہوئے، جہاں عوامی مسائل کے حل کے لیے مختلف نکات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہمیں مسائل کو نئے انداز میں دیکھنا ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اگر بھلائی کریں تو دس گنا زیادہ انعام ملتا ہے اور اگر برائی کریں تو اسی کے برابر سزا ملتی ہے۔ جن لوگوں نے انقلاب اسلامی برپا کرنے میں محنت کی ہے، اگر ایک بار ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ کے لیے عملی میدان سے باہر کر دینا درست نہیں ہے۔
پزشکیان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ تینوں سربراہان کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں ہم نے عوام کی معیشت کے مسائل پر بات چیت کی۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ عید نوروز سے پہلے عوام کی معیشت اور ان کے روزمرہ کے مسائل حل کیے جائیں۔ اگلے سال کے لیے ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا جس سے عوام کی معیشت بہتر ہوجائے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلام کو دوبارہ زندہ کیا اور امت مسلمہ کو عزت واپس دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام خمینیؒ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے لوگوں، خصوصا نوجوانوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ انقلاب ایک امانت ہے جو آج ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
انھوں نے توانائی کے عدم توازن کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ توانائی کے وسائل کی قیمتوں میں اضافہ نہ تو پہلا قدم ہے اور نہ ہی واحد حل۔ ہمیں اس مسئلے کو صحیح طریقے اور حکمت عملی سے حل کرنا چاہیے۔
پارلیمنٹ کے سربراہ نے کہا کہ ہم سب کو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے اور تنازعات سے بچنا چاہیے، کیونکہ دشمن اپنے تمام تر وسائل دو قطبی فضا پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ہمیں رہبر معظم انقلاب کی ہدایات کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے۔
اجلاس کے دوران عدلیہ کے سربراہ حجتالاسلام والمسلمین محسنی اژهای نے کہا کہ دشمن آج پہلے سے زیادہ کینہ رکھتا ہے کیونکہ وہ شکست کھا چکا ہے۔ ہم نے متعدد شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کیں اگرچہ بعض موارد میں ہماری کامیابی کا تناسب کم ہے۔ ہم نے آئین کے مختلف اصولوں کو حقیقت کا روپ دینے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ابھی بھی ان اصولوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو حکومت اور عوام سے متعلق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ بعض شعبوں میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ان اجلاسوں میں ہمیں ان مسائل پر سنجیدہ ہوکر بات کرکے آگے بڑھنا ہوگا اور ہم سب کو ایک مشترکہ نظریہ رکھنا چاہیے تاکہ نتیجہ تک پہنچ سکیں۔ اگر اکثریت کوئی بات اسلامی اصولوں اور حق کے مطابق کہے، تو اقلیت کو اس کی پیروی کرنا چاہیے۔