خبر رساں ایجنسی مہـر، بین الاقوامی ڈیسک:
غزہ میں 470 دنوں کی جنگ کے بعد بالآخر فریقین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ قطر کے وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق 30 جنوری کی صبح 8:30 بجے معاہدہ نافذ العمل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ حماس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ طوفان الاقصی نے صیہونی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ معاہدہ نتن یاہو کے لیے ایک مکمل شکست کے مترادف تھا۔ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ 15 مہینے تک جاری رہی۔ ان 15 مہینوں کے دوران دنیا نے 365 کلومیٹر کے غزہ پر تاریخ انسانی کی سب سے شدید اور تباہ کن بمباری کی گئی۔ صہیونی حملوں کا بنیادی مقصد حماس اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کو توڑنا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کئی بار غزہ کے عوام کو مصر ہجرت پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار غزہ کے عوام کی شدید مقاومت کی وجہ سے منہ کی کھانی پڑی۔ جب نتن یاہو اور اس کی کابینہ کو غزہ کے عوام اور حماس کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے کچھ اہداف مقرر کیے جن میں حماس کا مکمل خاتمہ، غزہ کی پٹی پر قبضہ، صیہونی بستیاں تعمیر کرنا اور یرغمالیوں کی رہائی جیسے اہداف شامل تھے۔ گزشتہ 470 دنوں کے دوران نتن یاہو نے کئی مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کیا۔
دوسری طرف حماس نے بھی یرغمالیوں کی رہائی، سعودی-اسرائیل معاہدے کو سبوتاژ کرنے اور مسجد اقصی پر اسرائیلی جارحیت کا بدلہ لینے جیسے مقاصد طے کیے تھے۔ حماس نے آخری دن تک مزاحمت جاری رکھی اور صیہونی حکومت کو بھاری نقصان پہنچایا۔ 15 مہینوں کے دوران صہیونی فوج کے 900 سپاہی اور افسر ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے۔ جب نتن یاہو نے دیکھا کہ حماس کی جنگی قوت اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کو ختم کرنا محض ایک سراب ہے تو وہ جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہو گیا۔
مہر نیوز نے غزہ میں جنگ بندی اور اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں تہران میں اسلامی جہاد تحریک فلسطین کے نمائندے ناصر ابوشریف سے گفتگو کی ہے جس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کن شرائط کے ساتھ قبول کیا گیا ہے؟ صہیونی حکومت جنگ بندی پر کیوں راضی ہوگئی؟
ناصر ابوشریف: فلسطینی مزاحمت نے جنگ کے آغاز سے ہی مخصوص شرائط کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی۔ پہلی اور بنیادی شرط یہ تھی کہ صیہونی افواج غزہ سے مکمل طور پر پسپائی اختیار کریں۔ دوسری شرط قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی تھی۔ تاہم نتن یاہو نے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ وہ جنگ بندی نہیں چاہتے تھے کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو طاقت کے ذریعے آزاد کرایا جائے۔ اس کے علاوہ، نتن یاہو غزہ سے انخلا سے بھی گریزاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ صیہونی فوجی وہاں موجود رہیں۔ وہ غزہ میں مقاومت کو مکمل طور پر کچلنے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن 470 دن کی جنگ کے بعد اس کا واحد نتیجہ وہ سنگیں اور ہولناک جرائم تھے جو عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی اداروں کی نظروں کے سامنے انجام پائے۔
ماہرین کے مطابق صیہونی حکومت کے پاس دو ہی آپشن بچے تھے: جنگ بندی کو قبول کرے یا پھر مزید نقصان اٹھائے۔ بالآخر اس نے جنگ بندی کو کم نقصان دہ آپشن سمجھتے ہوئے تسلیم کرلیا۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے قیدیوں کے تبادلے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ عمل معطل ہوگیا۔ جنگ بندی کے بنیادی نکات میں صیہونی افواج کا بتدریج انخلا بھی شامل تھا جس کے تحت انہیں مرحلہ وار غزہ چھوڑنا تھا۔ یہ وہ شرائط تھیں جن کے تحت جنگ بندی کو حتمی شکل دی گئی۔
مہر نیوز: جنگ بندی پر عملدارمد کو مدنظر رکھتے ہوئے غزہ کا مستقبل اور اس کا انتظام کیسا ہوگا؟
ناصر ابوشریف: غزہ کے مستقبل اور اس کے انتظام کے حوالے سے فیصلہ غزہ کے عوام کو کرنا چاہیے اور انہیں اپنے معاملات کا اختیار ہونا چاہیے۔ یہ مکمل طور پر فلسطینیوں کا اندرونی مسئلہ ہے۔ کوئی بھی بیرونی طاقت غزہ پر حکمرانی نہیں کرسکتی۔ غزہ کا انتظام داخلی ہونا چاہیے کیونکہ حماس اور مقاومت خود غزہ کے عوام کا ایک حصہ ہیں اور اسی لیے ان کا کردار ناگزیر ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید اصول اور سرخ لکیر ہے کہ غزہ کی حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ حماس نے کبھی غزہ کی حکومت سنبھالنے کی خواہش ظاہر نہیں کی اور نہ ہی اس کی خواہشمند رہی ہے۔ کئی بار یہ تجویز دی گئی کہ فلسطینی اتھارٹی حماس کی جگہ غزہ کا انتظام سنبھال لے لیکن حماس کا ہمیشہ یہی مؤقف رہا کہ غزہ کا انتظام فلسطینی عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے بغیر اس کے کہ وہ مقاومت کے عمل سے پیچھے ہٹیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے عرب اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حماس کی قیادت کو چیلنج کیا ہے۔ حماس کو خود حکومت کرنے کی خواہش نہیں ہے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک اجتماعی اور فکری شراکت داری قائم ہوجائے تاکہ غزہ کا نظم و نسق بہتر کیا جائے۔ کئی ٹیکنوکریٹس موجود ہیں جو غزہ کے انتظامی معاملات سنبھال سکتے ہیں۔ یہ افراد سول سوسائٹی، فلاحی تنظیموں اور مختلف پیشہ ورانہ اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقاومت کی حیثیت سے ہم بھی اس طریقہ کار کو قبول کرتے ہیں۔
غزہ کی بہبود اور امدادی سرگرمیوں میں فلاحی تنظیمیں اور فلسطینی پیشہ ورانہ انجمنیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مصر اور اردن جیسے ممالک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے غزہ کی امداد کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
مہر نیوز: جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے پر حملے کیے ہیں، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں مغربی کنارے میں جنگ کا مشاہدہ کریں گے؟ بنیادی طور پر اسرائیل مغربی کنارے میں کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟
ناصر ابوشریف: حقیقی جنگ غزہ میں نہیں بلکہ مغربی کنارے میں ہے۔ ٹرمپ کی پہلی حکومت میں “ڈیل آف سینچری” پیش کی گئی جس میں یروشلم اور کچھ صیہونی بستیوں کو اسرائیل کے ساتھ الحاق کرنے کا ذکر تھا۔ آج وہ منصوبہ کہیں زیادہ وسیع ہو چکا ہے اور اس میں مغربی کنارے کے بہت بڑے حصے، صیہونی بستیوں اور سرحدی علاقوں کو اسرائیل کے ساتھ ملانے کی تجویز شامل ہے۔ ہمیں ایک حقیقی جنگ کا سامنا ہے۔ صہیونی انتہا پسند حکومت دو ریاستی فارمولے کی قائل ہی نہیں۔ امریکہ میں برسراقتدار آنے والے ٹرمپ اور ان کی کابینہ کا بھی اس پر کوئی اعتقاد نہیں ہے۔
ہمیں آج غزہ میں نہیں بلکہ غرب اردن میں جنگ کا سامنا ہے۔ کئی دہائیوں سے اسرائیل نے مغربی کنارے پر کام کیا ہے اور اس کے اندر نتن یاہو کے منصوبے خاص طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 2010 میں ہی وہ یروشلم اور مغربی کنارے کے حصوں کو مکمل طور پر اسرائیل میں شامل کرنے کا سوچ رہے تھے۔ آج جب نتن یاہو کی حکومت اور سموٹریج جیسے انتہا پسند وزیر اقتدار میں ہیں تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی عوام مزاحمت کررہے ہیں لیکن غرب اردن فلسطینی اتھارٹی کے زیر اثر ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کے لیے عربی، اسلامی اور بین الاقوامی تعاون کے بغیر کچھ کرنا مشکل ہے۔ مغربی کنارے کو درپیش بڑے خطرات کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے خاص طور پر جب ٹرمپ جیسے صہیونی حکومت کے حامی مغربی کنارے کے الحاق کا خواب دیکھتے ہوئے اقتدار میں واپس آچکے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ فلسطینی عوام کا اپنی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں مغربی کنارے میں ایک وسیع جنگ کا امکان بڑھ رہا ہے۔
مہر نیوز: وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کی واپسی کا فلسطینی مسئلے پر کیا اثر پڑے گا؟
ناصر ابوشریف: اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر متوقع شخصیت کے مالک ہیں لیکن آخرکار انہیں بین الاقوامی اداروں اور عالمی قوانین کے سامنے تسلیم ہونا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے عرب ممالک پر شدید دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں ابراہم امن معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کا قیام ممکن ہوا۔ یہ امن معاہدہ طوفان الاقصی کے ساتھ انجام پذیر ہوا۔ صدر ٹرمپ کا مقصد فلسطینی عوام اور ان کے مذہبی اور قومی تشخص کو ختم کرنا تھا۔ امریکہ کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنا اور اس کے بعد یروشلم پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت، طوفان الاقصی کے آغاز کے اہم اسباب میں سے تھے۔ اس طرح کے دباو کے نتیجے میں فلسطین اور عرب دنیا میں ایک دن ایسا لاوا پھٹ سکتا ہے جس کا اثر نہ صرف فلسطین بلکہ اردن جیسے ملکوں پر بھی پڑے گا۔
سعودی عرب کا موقف یہ تھا کہ وہ تعلقات قائم کرنے کے عمل میں اس وقت شامل ہوگا جب اسرائیل دو ریاستی حل کو تسلیم کرے لیکن چونکہ اسرائیل نے اسے قبول نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی توقع ہے۔ صدر ٹرمپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر خطے میں امن و استحکام ممکن نہیں۔ ٹرمپ کے دباؤ سے خطہ مزید متنازعہ ہوسکتا ہے اور ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جن کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ ایسے واقعات ماضی میں پیش آئے ہیں چنانچہ ایران میں مصدق کی قوم پرست حکومت پر دباؤ ڈال کر گرا دیا گیا تو اس کے بعد ایران میں اسلامی انقلاب برپا۔ اسی طرح افغانستان میں مداخلت کے نتیجے میں طالبان نے نئی شکل کے ساتھ سر اٹھایا۔ اس لیے خطے پر مزید دباؤ ڈالنے سے حالات پہلے سے بھی زیادہ نازک اور بے قابو ہوسکتے ہیں۔