جیل میں بند جنوبی کوریا کے صدر کو کئی سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے مارشل لاء آرڈر کا مقصد سیاسی اور پارلیمانی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور میڈیا کو کنٹرول کرنا تھا۔
جنوبی کوریا کے استغاثہ نے اتوار کو صدر یون سک یول پر بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام عائد کیا۔ یہ الزامات تین دسمبر کو مارشل لاء لگانے کے ان کے متنازعہ فیصلے سے متعلق ہیں۔ اس کی تصدیق یون کے وکلاء اور مرکزی اپوزیشن پارٹی نے کی ہے۔
یون کے وکلاء نے فرد جرم کو پراسیکیوشن سروس کا “بدترین فیصلہ” قرار دیا، جبکہ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے کہا کہ یہ درست اقدام ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جنوبی کوریا کے کسی صدر پر اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اگر یون کو سزا سنائی جاتی ہے تو اسے کئی سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے حیران کن مارشل لاء آرڈر کا مقصد سیاسی اور پارلیمانی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور میڈیا کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان کے اس اقدام سے ایشیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت اور امریکہ کے ایک بڑے اتحادی میں بڑے پیمانے پر سیاسی ہلچل مچ گئی۔
اس دوران وزیر اعظم کا مواخذہ بھی ہوا اور انہیں اقتدار سے معطل بھی کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی اعلیٰ فوجی حکام پر بھی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ یون کے وکلاء نے ایک بیان میں کہا، “صدر کی جانب سے ایمرجنسی مارشل لاء کا اعلان اپوزیشن کے کنٹرول سے باہر ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے قومی بحران کے جواب میں عوام سے ایک مایوس کن اپیل تھی۔”
پراسیکیوٹر کے دفتر نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم جنوبی کوریا کے میڈیا نے بھی اس الزام کی تصدیق کی ہے۔ گزشتہ ہفتے، انسداد بدعنوانی کے تفتیش کاروں نے جیل میں بند یون کے خلاف الزامات درج کرنے کی سفارش کی تھی۔ یون کا 14 دسمبر کو پارلیمنٹ نے مواخذہ کیا تھا اور انہیں ان کی ذمہ داریوں سے معطل کر دیا گیا تھا۔سابق چیف پراسیکیوٹر یون کو 15 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے قبل ان کی سیکورٹی ٹیم اور حکام کے درمیان کئی دنوں تک کشیدگی رہی۔ تب سے وہ قید تنہائی میں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔