ڈونالڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکی صدر کا حلف لیا اور کئی اہم فیصلے کیے، جن میں تیسرے جنس کا خاتمہ، حماس-اسرائیل جنگ بندی، اور ’امریکہ فرسٹ پالیسی‘ پر عملدرآمد شامل ہے
دنیا کے نئے نظام کے سب سے طاقتور کہے جانے والے امریکہ میں نئے صدر جناب ڈونالڈ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ ویسے تو ڈونالڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کی امیدوار اور ملک کی اس وقت کی نائب صدر کملا ہیرس کو پانچ نومبر کو ہی ہرا دیا تھا لیکن امریکی عوام جس امیدوار کو منتخب کرتے ہیں وہ 20 جنوری کو باقاعدہ صدر کے عہدہ کا حلف لیتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کل یعنی 20 جنوری کو حلف لیا اور حلف لینے کے فوراً بعد کئی اعلان بھی کر دیے، جن میں ویسے تو کئی پہلوؤں پر انہوں نے اعلان کیے لیکن سب سے اہم اعلان جو کیا وہ تیسرے جنس کا خاتمہ ہے۔ اس اعلان کے بعد امریکہ میں اب صرف خواتین اور مرد ہوں گے۔
یہ اعلان اس ملک کے صدر کی جانب سے ہوا جو ملک دنیا کا سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں ترقی کی نئی لہر میں تیسرے جنس کو ایک جگہ دی گئی ہے اور اس کا کہیں نہ کہیں تعلق عوام کی آزادی سے ہے۔ آج کی دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ تیسرے جنس کے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں اور ان کو عزت کی نظر سے دیکھنا چاہیے لیکن امریکہ جیسے ملک کے صدر کی جانب سے اس اعلان نے امریکہ کی ترقی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جو اعلانات کیے ہیں ان سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان کو دوبارہ انتخاب نہیں لڑنا، کیونکہ امریکہ میں کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زیادہ صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا، اس لیے ان کی نظر میں جو بھی صحیح ہے وہ صرف وہی کریں گے اور ان کو جن لوگوں نے دوبارہ صدر بننے میں مدد کی ہے، وہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
جب بات مفادات کے تحفظ کی ہوتی ہے تو اس وقت وہ ان کھلاڑیوں کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے جنہوں نے ان کی غائبانہ مدد کی ہے۔ ٹرمپ نے حلف لینے سے قبل کہہ دیا تھا کہ ان کی حلف برداری کی تقریب سے قبل حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی ہو جائے گی اور وہ ہو گئی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ بائیڈن کے دور میں بھی حماس اور نیتن یاہو ٹرمپ کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں، بائیڈن کے دور میں جو لڑنے والے ممالک تھے وہ بھی صرف نورا کشی ہی کر رہے تھے اور غائبانہ طور پر ٹرمپ کی مدد ہی کر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد ایسے ہی فیصلے روس اور یوکرین سے بھی آئیں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی عوام غزہ کے حالات سے اس قدر بائیڈن انتظامیہ سے ناخوش ہو گئے تھے کہ انہوں نے ٹرمپ جیسے شخص کو امریکہ کا صدر منتخب کر لیا۔ اس موقع پر ایک شعر یاد آ رہا ہے ’کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں سے لوگ، جو پیڑ کھوکھلے تھے انہی سے لپٹ گئے۔‘‘ امریکہ میں پیسے والے کارپوریٹ گھرانوں کے ذہن میں ٹرمپ کی ایک پالیسی ’امریکہ فرسٹ‘ نے جادو کیا لیکن شاید ان کو یہ بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ٹرمپ کی یہ پالیسی انہی کا کتنا نقصان کرے گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب امریکی سرمایہ دار سے پوری دنیا سوال کرے گی اور ان کی پوچھ بھی کم ہو جائے گی کیونکہ پوری دنیا متبادل کی تلاش کرنے لگے گی۔
جس طرح امریکی انتخابات سے قبل اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کی خبریں چھائی رہیں اور ان خبروں کی وجہ سے ڈیموکریٹس کے خلاف ماحول بنا اس سے بھی کئی طرح کے سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ یعنی اس وقت بھی ٹرمپ کے حق میں امریکی انتظامیہ پوری طرح کام رہی تھی اور اس میں ان کی مدد خود ساختہ مسلم ممالک کر رہے تھے، جس کی وجہ سے آج امریکہ میں ایک ایسے صدر نے حلف لیا ہے جو امریکہ کو آگے نہیں پیچھے لے جائے گا۔ امریکہ کو دنیا ترقی یافتہ ممالک میں شمار کرتی ہے اور اگر امریکہ کو بھی خود کو منوانے کے لیے کام کرنا پڑے تو اس کی اس ترقی پر ہی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔