ہندوستان کی آزادی سے قبل تحریک آزادی کے دوران جیل جانے کے بعد ہیڈگیوار نے کانگریس سے اور آزادی کی لڑائی سے کنارہ کر لیا، پھر 1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا۔
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ’آزادی‘ سے متعلق دیے گئے متنازعہ بیان پر کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے شدید الفاظ میں حملہ کیا تھا اور انھیں اس بیان کے لیے غدارِ وطن تک کہہ ڈالا تھا۔ راہل گاندھی کے بیان پر بی جے پی لیڈران نے حملہ بھی کیا، لیکن کئی سیاسی و سماجی لیڈران نے موہن بھاگوت کے بیان کو مجاہدین آزادی اور تحریک آزادی کی توہین قرار دیا۔ اب اس معاملے میں مشہور و معروف مصنف پیوش ببیلے نے کچھ ایسے حقائق سامنے رکھے ہے جو آر ایس ایس کی تاریخ سامنے لاتی ہے۔ انھوں نے ایک ویڈیو میں بتایا ہے کہ آر ایس ایس لیڈران نے نہ ہی ملک کی آزادی میں کوئی تعاون دیا، اور نہ ہی آزادی کے بعد ملک کی ترقی میں ان کی کوئی مدد شامل رہی۔ بلکہ وہ بیشتر اوقات ملک مخالف سرگرمیوں میں ہی شامل رہے۔
پیوش ببیلے کی ویڈیو کو کانگریس نے اپنے آفیشیل ’ایکس‘ ہینڈل پر شیئر کیا ہے جس میں ببیلے کہتے ہیں کہ ’’آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کہا ’ہمیں آزادی 1947 میں نہیں ملی‘ اس پر اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے صاف لفطوں میں کہا کہ ’اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ہمیں آزادی 1947 میں نہیں ملی، تو یہ آزادی کی توہین ہے، غداری ہے۔ کسی اور ملک میں ایسی بات کہنے والے کو گرفتار کر لیا جاتا۔‘ سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس کی غداری کی ایک تاریخ رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد پیوش ببیلے آر ایس ایس کی بنیاد اور دیگر حقائق بیان کرتے ہیں۔
پیوش ببیلے بتاتے ہیں کہ ’’آر ایس ایس کا قیام 1925 میں ڈاکٹر کیشورام بلی رام ہیڈگیوار نے کیا تھا۔ دراصل ہیڈگیوار پہلے کانگریس پارٹی کے رکن تھے اور مہاتما گاندھی نے 1921 میں جب ’تحریک عدم تعاون‘ شروع کیا تو کروڑوں کانگریسیوں کی طرح وہ بھی جیل گئے۔ لیکن جیل میں جہاں باقی مجاہدین آزادی کو انگریزوں کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہیڈگیوار نے جیلر سے سانٹھ گانٹھ کر لی۔ جب وہ جیل سے رِہا ہوئے تو دبلے ہونے کی جگہ موٹے ہو گئے تھے اور جو کپڑے پہن کر وہ جیل گئے تھے، رِہائی کے وقت وہ کپڑے انھیں چھوٹے ہونے لگے۔ (بحوالہ: ’سوتنترتا آندولن اور آر ایس ایس‘، از شمس الاسلام۔‘‘
پیوش ببیلے اس کے بعد کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی آزادی سے قبل تحریک آزادی کے دوران جیل جانے کے بعد ہیڈگیوار نے کانگریس سے اور آزادی کی لڑائی سے کنارہ کر لیا۔ پھر 1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا۔ 1931 کی ’سول نافرمانی تحریک‘ میں آر ایس ایس نے حصہ نہیں لیا۔ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں یہ دوسری سب سے بڑی تحریک تھی اور آر ایس ایس کے قیام کے بعد ملک میں پہلی سب سے بڑی تحریک تھی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’سردار بھگت سنگھ جب جیل میں بند تھے تو ان سے ملنے پنڈت نہرو جیل گئے اور نہرو و سبھاش چندربوس نے ان کی حمایت میں ریلیاں کیں، لیکن آر ایس ایس نے بھگت سنگھ کی حمایت میں ایک لفظ نہیں بولا۔‘‘
ہندوستان کی تحریک آزادی سے آر ایس ایس کی کنارہ کشی کی مزید کئی مثالیں پیوش نے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’1942 میں آر ایس ایس نے ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی مخالفت کی۔ جب پورا ملک جیل میں تھا تب گرو گولوالکر گھر میں بیٹھے تھے۔ جب کانگریس پارٹی 1942 میں ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کر رہی تھی، تب بی جے پی کے آبا و اجداد اور ہندو مہاسبھا کے بڑے لیڈر بنگال کی فضل الحق حکومت میں وزیر تھے۔ فضل الحق وہی شخص ہیں جنھوں نے مسلم لیگ میں پاکستان کی تشکیل سے متعلق تجویز پیش کی تھی۔ وہ اور شیاما پرساد مکھرجی انگریز گورنر کو خط لکھ کر بتا رہے تھے کہ ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کو کس طرح سے کچلنا چاہیے اور مظاہرین کو کس طرح سزا دینی چاہیے۔‘‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پیوش ببیلے نے پیارے لال کی لکھی کتاب ’پورناہوتی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’آزادی کے ٹھیک پہلے برلا بھون میں مہاتما گاندھی کے دعائیہ اجلاس میں آر ایس ایس کے لوگ جا کر رخنہ پیدا کرتے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ستمبر 1947 میں مہاتما گاندھی دہلی میں آر ایس ایس کی دعوت پر ان کی تقریب میں گئے تھے اور وہاں مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ آر ایس ایس ایک فاشسٹ تنظیم ہے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اُس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 4 فروری 1948 کو ملک مخالف سرگرمیوں کے سبب آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تھی۔‘‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پیوش کہتے ہیں کہ ’’مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد جب شیاما پرساد مکھرجی لگاتار آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کا دفاع کر رہے تھے، تب 18 جولائی 1948 کو مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے شیاما پرساد مکھرجی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ہماری رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ان دو اداروں (ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس)، خصوصی طور سے آر ایس ایس کی روش کے سبب ملک میں ایسا ماحول پیدا ہو گیا تھا جس سے مہاتما گاندھی کے قتل جیسا خوفناک حادثہ ممکن ہوا ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ جانکاری بھی دیتے ہیں کہ ’’آر ایس ایس کی ایسی حرکتوں کے سبب پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ آر ایس ایس ایک سازشی تنظیم ہے۔ اگر آر ایس ایس کا آدمی یہ کہے کہ وہ پورب کی سمت جا رہا ہے، تو اس سے صرف اتنا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پورب کے علاوہ باقی 3 میں سے کسی ایک سمت میں جائے گا۔‘‘
ویڈیو کے آخر میں پیوش ببیلے کہتے ہیں کہ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے لیڈران کی آر ایس ایس کے بارے میں کیا رائے تھی۔ آر ایس ایس کے بارے میں راہل گاندھی جی جو کہہ رہے ہیں اسے بہت سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔ ہمیں ملک میں جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے آر ایس ایس کے نظریات سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔