تحریر:سید سرفراز احمد
اپنے لخت جگر کی جدائی کا غم اس ماں سے پوچھیئے جس نے اپنے لخت جگر کو بچپن سے اپنی گودی میں کھلایا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور اس کی پرورش کچھ اس طرح کی کہ وہ قابل بنے اور دنیا میں ایک روشن ستارے کی طرح جگمگتا رہے بیٹے کی جدائی کا غم اس شفیق باپ سے پوچھیئے جس نے اپنے کندھوں پر بٹھایا اس کے لرزتے قدم کو سہارا دیا اس کی ہر مصیبت میں ایک آہنی دیوار بن کر کھڑا رہا جس پر دھوپ کی شدت کا سایہ پڑنے سے پہلے وہ خود ایک ٹھنڈا سایہ بن کر آسرا بن جاتا والدین کی اپنی اولاد کے لیئے یہ وہ محبت ہے جو دنیا کے کسی خطے میں بھی آپ کو تلاش کرنے پر نہیں ملے گی۔
اس محبت کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت ہی نسلوں کے اندر وقت کے ساتھ ساتھ حوصلوں اور جرات کے عزائم کو چٹانوں کی طرح اپنے اندر یپوست کرلیتی ہے محبت شفقت اور تربیت میں جب توازن رکھا جاتا ہے تو نسلوں میں بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ حوصلوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے ہر قدم پر بجاۓ ڈگمگانے کے استقامت جھلکتی ہے تب ہی ایسی نسلوں کو والدین بھی سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اولاد کے حق میں والدین ہی سب سے مضبوط ڈھال ہوتے ہیں جو یا تو اپنی اولاد کو کمزور بناسکتے ہیں یا پھر طاقتور چاہے وہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر،یہ طویل سفر ہے جس کے بعد یہ نسلیں اپنی نوجوانی میں کھبی اپنے والدین کو مایوس نہیں کرسکتی بلکہ ایسے ایسے کام کرتے چلے جائیں گے کہ جس سے والدین بھی اپنا سر فخر سے اٹھا کر چل سکیں گے۔
دراصل یہ تحریر مجھے عمر خالد کی ان دو تصاویر نے لکھنے پر مجبور کیا جو لگ بھگ ساڑھے چار سال سے قید و بند کی صعوبوتوں کو جھیل رہے ہیں نہ صرف عمر خالد بلکہ ان کے ساتھ شرجیل امام،خالد سیفی،گلفشاں فاطمہ،میراں حیدر کے علاوہ دیگر کو بھی ناحق ملزم بناکر یو اے پی اے کے تحت جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہر نوجوان کی جوانی کا وقت اس کے لیئے کسی سرمایہ سے کم نہیں ہوتا لیکن یہ اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے باوجود اپنی زندگیوں کے قیمتی اوقات کو قربان کررہے ہیں جنھیں سازشوں کے طوفان نے اپنے ساتھ لے چلا۔
کونسا نوجوان اور کونسے والدین نہیں ہونگے جو اپنی اولاد کے مستقبل کے لیئے خواب نہیں سجاۓ ہونگے ان جیل میں محروس نوجوانوں کے والدین بھی کیا کیا خواب نہیں سجاۓ ہونگے لیکن کسے پتہ تھا کہ انھیں اپنی قیمتی زندگی جیل کے حوالے کرنی پڑے گی عمر خالد کی یہ دونوں تصاویر جو کچھ پیش کررہی ہے اس کے لیئے بھی دل اور جگر چاہیئے جنھیں شادی کے لیئے سات دن کی ضمانت پر چھوڑا گیا تھا لیکن واپسی کے دوران عمر خالد نے جو کچھ سبق دیا وہ ہم میں سے ہر ایک کے لیئے ایک خاموش پیغام ہے۔
بھلا ایک نوجوان ساڑھے چار سال سے قید کی زندگی گذار رہا ہو اور سات دن کی چھٹی کے لیئے آتا ہے اور پھر واپس جیل کے لیئے لوٹتا ہے تو چہرے پر حسین سی مسکراہٹ جیت کا نشان اور وہ زور دار قہقہہ والی تصویرجو یہ صدا لگارہی ہے کہ زندگی اور موت تو برحق ہے لیکن با مقصد زندگی کی بات اور ہے یہ مسکراہٹ اس بات کی ضامن بھی ہے کہ اہل ایمان جو خدا پر کامل یقین رکھنے والے ہیں جنھیں یہ دنیاوی سازشیں کبھی ان کے عزائم حوصلوں اور جرات کو کمزور نہیں کرسکتی خود عمر خالد کی انتخاب کردہ ٹی شرٹ پر لکھا ہوا یہ انگریزی قول(we don’t do ordinary)مخالفین کو یہ ایک کرارا جواب ہے اگر چہ کہ اس کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے۔
کسی بھی انسانی زندگی کے ساڑھے چار سال یوں ہی نہیں ہوتے خاص طور پر ان نوجوانوں کے جو ملک کی مایہ ناز یونیورسٹیوں سے فارغ ہوں جن کی حیثیت اسکالرس کی ہوں جو نہ صرف خاندانی ورثہ ہے بلکہ قوم و ملت کے مستقبل کا اصل سرمایہ ہے لیکن آج کی اس آمرانہ حکومت پر ایک بدنما داغ ہے جو اس قابل قدر سرماۓ کو جیلوں میں ٹھونس کر رکھا ہے ساڑھے چار سال کی قیمت اس نوجوان سے پوچھیئے جس نے تعلیم کی جدو جہد میں اپنے گھر و اقرباء سے دور رہ کر گذارے ہیں جن کا ایک ایک پل کسی سنگلاخ راستے سے کم نہیں ہوتا جس سے ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پابند سلاسل کا سفر کتنا پر خار ہوگا؟ اور کیسے کیسے مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟ ہم تو بس تصور کرسکتے ہیں جس پر گذر رہی ہو وہی اس درد بھری داستان کو حقیقی معنوں میں پرو سکتا ہے۔
عمر خالد ہو یا ان کے ساتھی یا مولانا کلیم صدیقی ہمیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ حالات کا دھارا ضرور بدلے گا پھر جب یہ اپنوں کے درمیان آئیں گے تب ان کا حوصلہ اور جذبہ کم نہیں ہوگا بلکہ مزید اونچی اڑان نئے عزائم اور نئے سفر کے ساتھ نئے خواب سجائیں گے لیکن یہ وقت ہمارے بھی احتساب و جائزے کا ہے کہ ہم نے اس انصاف کی جنگ میں ان کا کتنا ساتھ دیا؟ان کے حقوق کی لڑائی کے لیئے کس قدر آواز کو بلند کیا؟
کہا جاتا ہے خدا جب مومنوں کو آزمائشوں میں مبتلاء کرتا ہے تو سخت آزمائشیں بھی ان کے لیئے آسائش میں تبدیل ہوجاتی ہے درد بھرے کانٹے بھی پھول کا احساس دلانے لگتے ہیں غموں کے ہزار ساۓ بھی خوشیوں کا سماں باندھ دیتے ہیں جس کا کھلا ثبوت عمر خالد کی یہ تصاویر ہیں جو یہ ثابت کررہی ہے کہ انسان اپنوں کی محبت میں پہاڑ کی مانند غم کو بھی کتنی آسانی سےبھلا سکتا ہے مومن کی یہ شان بھی ہے کہ وہ ہر ایک درد کو سینے میں دفن کرکے مسکرانے کا ہنر جانتا ہے لیکن کون ہے جو اس مسکراتی تصویر کے پیچھے چھپے غموں کو حقیقی معنوں میں پہچان سکتا ہے۔
جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا ہے
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں