عیسوی نئے سال کے آغاز پر جشن منانا غیروں کا طریقہ اور ان کی نقالی ہے

انوارالحق قاسمی

(ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال)

عیسوی نئے سال کے آغاز پر غیروں کے جشن منانے پر ہمیں کوئی دقت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس کا کوئی حق ہے؛کیوں کہ وہ ہمارے نہیں ؛بل کہ غیر ہیں ، مگر جب ہمارے، غیروں کے طریقوں کو اپناتے ہیں یا پھر بدعات وخرافات کو ہوا دیتے ہیں ،تو پھر ہمیں دقت ہی نہیں ،بل کہ رونا آتا ہے اور رونا بھی معمولی آنسوؤں سے نہیں ،بل کہ خونی آنسوؤں سے آتاہے۔غیروں کے طریقوں میں سے ایک طریقہ عیسوی نئے سال کے آغاز پر جشن منانا ہے۔ اور اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عیسوی نئے سال کے آغاز پر جشن منانا غیروں کا طریقہ کیسے ہے ؟ تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ غیروں کا طریقہ کیسے ہے ؟ وہ بایں طور ہے کہ نئے سال کا’ جشن’ عیسائیوں کاایجاد کردہ ہے۔عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ -علیہ السلام -کی ولادت ہوئی ، اسی کی فرحت و بہجت اور خوشی میں کرسمس ڈے (عید ولادت مسیح)منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن و انبساط کی کیفیت رہتی ہے

 

اور یہی کیفیت و حالت نئے سال کے آغاز تک برقرار رہتی ہے اور نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور 31/دسمبر کی رات میں 12/ بجنے کا شدت سےانتظار کیا جاتاہے اور 12/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر (عیسوی تقویم کے مطابق نئے سال کی آمد کا جشن)کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں( ریستوراں میں تفریحی پروگرام جومہمان میزوں پر کھانا کھاتے میں دیکھتے ہیں )میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے۔ یہ ہے عیسوی نئے سال کے آغاز پر جشن منانے کا پس منظر ہے ۔

 

پس متذکرہ پس منظر سے معلوم چلا کہ عیسوی نئے سال کے آغاز پر جشن منانا غیروں کا طریقہ اوران کی نقالی ہے۔ شريعت مطہرہ نے ہمیں غیروں کی اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی سے روکاہے۔حدیث مبارکہ کی عبارت ہے:’’قَالَ رَسُولُ اللّٰه -صلی اللّٰہ علیه وسلم-: من تشبه بقوم فهو منهم۔‘‘ (المسند الجامع، (الجهاد)  ترجمہ: ’’حضور -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔‘

 

امیر ا لموٴمنین حضرت عمر بن الخطاب نے یہودیوں سے کہا کہ ”اگر کسی دن کو بطور یادگار منانے کا کوئی جواز یا اس میں کوئی عمدگی ہوتی، تو ہم اس دن کو بطور یادگار مناتے، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سب سے بڑا انعام تکمیل دین اور اتمام نعمت کا فرمایا اور قرآن میں اس انعام کا ذکر ‘الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا’ کی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ جب اتنے بڑے دینی اور روحانی انعام پرہمیں اسے بطور یادگار منانے کا حکم نہیں ہوا،تو دوسرے انعامات پر یادگار منانے کی اجازت ہمیں کیسے ہوسکتی ہے؟”۔  یہ ہمارا عجیب مزاج ہے کہ ہمیں جس چیز سے روکا گیا ہے ،ہم اسے کرنے کی طرف لپکتے ہیں اور جس چیز کے کرنے کو کہاگیا ہے ،ہم اسے کرنے سے مکرتے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ ہمیں غیروں کی مشابہت سے،نیزممنوعات سے بچنے والا اور مامورات کو بجا لانے والا بنائے آمین یارب العالمین۔

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *