نئی دہلی: معذور افراد معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کھیل کی دنیا میں ان کو بہت قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ، معذور افراد موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان معذوروں میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جن کو اپنی معذوری کا ذرا بھی غم نہیں ہوتا۔
کچھ معذور افراد میں خداداد صلاحیت ہوتی ہے اوروہ اس صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے جذنے اور حوصلہ سے کچھ ایسا کرگزرتے ہیں جس سے دنیا میں ان کا نام روشن ہوتا ہے۔
ایسے ہی ہندستان کے متوسط گھرانے کے محمد یاسر ہیں جنہوں نے بطور ایتھلیٹ ہندستان کا نام روشن کیا ہے۔
محمد یاسر ایک ہندوستانی ٹریک اور فیلڈ پیرا ایتھلیٹ ہے، جو مردوں کے شاٹ پٹ ایف46 میں مقابلہ کرتے ہیں۔
محمد یاسر نے تارا وویک کالج، انڈیا سے تعلیم حاصل کی۔ آٹھ برس کی عمر میں، یاسر ایک عجیب حادثے کا شکار ہوا ۔
بھوسی ہٹانے والی مشین میں آنے سے ان کا دائیاں ہاتھ کٹ گیا تھا اور وہ اس طرح اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے۔
اس نوعمر لڑکے نے اپنا ہاتھ گنوانے کے بعد بھی ہمت اور حوصلے سے کام لیا۔
چونکہ ان کو کھیلوں سے کم عمری سے ہی دلچسپی تھی اور وہ ایک بہترین ایتھلیٹ بننے کا خواب بچپن سے ہی دیکھا کرتے تھے۔
لہذا یاسر نے بہت حوصلہ اور ہمت سے اپنے کھیلوں کے کیرئر پر خاص توجہ دی۔
حالانکہ ان کو اپنے ایک بازو کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے لیکن یاسر نے کبھی بھی اپنی اس کمزوری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔
یاسر نے کھیلوں میں اپنا کریئر شاٹ پٹ میں بنانے کا فیصلہ کیا ۔
انہوں نے کم عمری میں کھیل شروع کردیئے تھے ان کی لگن اور محنت کو دیکھ کر ان کے کوچ بھی یاسر سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے کوچ نے یاسر کو پیرا اسپورٹس سے متعارف کرایا اور ان کی کوچنگ شروع کی۔
یاسر نے قابل نارمل کھلاڑیوں کے ساتھ شاٹ پوٹ کی مشق بھی کی۔ یاسر میں اپنے آپ اتنا حوصلہ تھا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے اور ان کی مضبوط قوت ارادی کی وجہ سے اس نے بڑے اسٹیج پر تمغے جیتے ہیں۔
جیسا کہ 2017 چائنا اوپن پیرا ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ان کا کانسہ کا تمغہ، جو ان کا پہلا بین الاقوامی مقابلہ اور بین الاقوامی تمغہ تھا۔
چین میں ان کی امید افزا پرفارمنس نے انہیں شارٹ لسٹ کیا اور بالآخر گو اسپورٹس فاؤنڈیشن پیرا چیمپئنز پروگرام 2017-18 کے تحت اسپورٹ کے لیے منتخب کیا گیا۔