امریکہ کی 2022ء میں ایران میں فسادات کو ہوا دینے کی کوششوں کا پول کھل گیا

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ دستاویز سابق امریکی ایلچی برائے ایران رابرٹ میلی کی شرکت سے تیار کی گئی تھی، جن کی پراسرار برطرفی نے عالمی سرخیوں میں جگہ پائی۔

ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی موت سے ایک طویل بدامنی کا آغاز ہوا جس نے ایران میں زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو متاثر کیا۔ اس کی وجہ سے بدامنی، کرنسی کے اتار چڑھاؤ، اور سماجی انتشار نے لاکھوں لوگوں کی زندگی کے پر برے اثرات ڈالے۔

 اس شورش کے شکار افراد میں ان لوگوں کا تذکرہ الگ ہے جنہوں نے بدامنی کے دوران اپنی جانیں کھو دیں چاہے وہ سیکورٹی فورسزہوں یا عام لوگ۔

 البتہ ایرانی حکام نے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے معاشرے کو پرسکون کرنے اور بدامنی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی پوری کوشش کی اور اس سمت میں ایک بڑا قدم عام معافی کا اعلان تھا جس میں وہ تمام افراد شامل تھے جو بدامنی میں گرفتار ہوئے تھے۔ 

ایرانی عہدیداروں نے نچلی سطح کی شکایات کو تسلیم کیا جنہوں نے بدامنی کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ سطحی ایرانی حکام نے غیر ملکی ہاتھوں کے بارے میں خبردار کیا اور غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے بہت سے ثبوت پیش کیے لیکن مغرب میں بہت سے لوگوں نے غیر ملکی مداخلت کے خیال مسترد کرنے کی پوری کوشش کی۔ 

تہران ٹائمز کی حاصل کردہ ایک تفصیلی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بائیڈن انتظامیہ نے 2022 کی بدامنی کے دوران ایران کے خلاف جارحانہ مداخلت کی پالیسی اختیار کی۔

22 نومبر 2022 کی دستاویز کو ایک باضابطہ حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو آنے والے مہینوں میں امریکہ کی ایران کے حوالے سے خطرناک پالیسی ثابت ہوئی۔ اسے امریکی محکمہ خارجہ نے تیار کیا تھا اور دیگر ایجنسیوں جیسے کہ امریکی قومی سلامتی کونسل کو بھیجا تھا۔ اس دستاویز میں ایران کے خلاف کارروائی کے لیے چار وسیع حصے بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں کئی ذیلی حصے شامل ہیں۔ دستاویز میں تجویز کیا گیا ہے کہ قومی سلامتی کونسل انڈر سیکرٹریز کی سطح پر چھوٹے، باقاعدہ اجلاس بلانے، ایران سے متعلقہ انٹیلی جنس کو آگے بڑھانے، ایجنسیوں کے درمیان کام کو بہتر بنانے اور صدر بائیڈن کو ایران میں ہونے والے “مظاہروں” کے بارے میں بریفنگ دینے کے سلسلے میں ایک روزانہ کی بنیاد پر مربوط کردار ادا کرے۔

مذکورہ دستاویز کا ایک بڑا حصہ یہ بتاتا ہے کہ ایران پر پابندیاں بڑھاتے ہوئے اور اسے بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کے لئے امریکہ کو ایران میں “مظاہرین” کی حمایت کیسے کرنی چاہیے۔ 

بہت سے لوگوں کے خیال کے برعکس یہ حمایت صرف ٹویٹس یا بیانات کی شکل میں نہیں ہے۔ یہ مبینہ آزادی کے متلاشی مظاہرین کی حمایت کے اظہار کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ 

اس دستاویز میں بائیڈن انتظامیہ کو نام نہاد مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد کے لیے امریکی جاسوس ایجنسیوں کے ذریعے حاصل کی گئی کچھ خفیہ معلومات کو لیک کرکے امریکی انٹیلی جنس کے ایجنٹوں کے ذریعے ٹیپ کرنے کی ہدایات شامل ہیں۔

 ہدایات اس حد تک تھیں کہ امریکہ کو ایران کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنانے پر مجبور کیا جائے تاکہ ملک کی سائبر صلاحیتوں کو کمزور کیا جا سکے۔ 

اس میں سٹار لنک سیٹلائٹ انٹرنیٹ ٹرمینلز کی زیر بحث اسمگلنگ کا دستاویز میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، جس میں امریکہ کی جانب سے ایران میں لوگوں کو انٹرنیٹ کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے VPN فراہم کرنے کے لیے پہلے سے اطلاع دینے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ دستاویز کے مطابق امریکی مداخلت کی کوششیں صرف خبروں اور معلومات تک رسائی کو بہتر بنانے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں بدامنی میں ملوث افراد کے لیے مالی مدد بھی شامل ہے جیسے کہ ہڑتال کے لئے فنڈز کا قیام۔ 

دستاویز کے ایک اور حصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بہانے ایرانی حکام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت پر توجہ دی گئی ہے۔ اس دستاویز میں اعلیٰ سطحی ایرانی حکام پر انسانی حقوق کی پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

اس میں یورپی اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعاون سے ایران کو بین الاقوامی اداروں میں تنہا کرنے کی کثیرالجہتی کوششیں بھی شامل ہیں۔ دستاویز میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کی حیثیت (CSW) میں ایران کی رکنیت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔

حکمت عملی کے اس حصے کو دسمبر 2022 میں نافذ کیا گیا تھا جب امریکہ نے ایران کو کمیشن سے ہٹانے کی کوششوں کو آگے بڑھایا تھا۔ مجموعی طور پر یہ دستاویز اس بات کے ثبوت کا ایک اور مواد ہے کہ کس طرح امریکہ نے ایک ایسے وقت میں ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جب وہ تہران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا مطالبہ کر رہا تھا۔ جب کہ 2022 کی بدامنی بہت پہلے ختم ہوگئی تھی بائیڈن انتظامیہ بظاہر ایران کو غیر مستحکم کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

 حال ہی میں ایرانی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ نے پیشکش کی ہے کہ طالبان امریکہ میں اپنے منجمد فنڈز حاصل کرنے کے بدلے ایران میں بدمنی کا باعث بنیں۔ اگر یہ درست ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کو غیر مستحکم کرنے کی امریکی حکمت عملی کو شیلف پر نہیں رکھا گیا بلکہ مزید مذموم کوششیں جاری ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *