[]
اترپردیش کے جھانسی شہر کے مفتی خالد ندوی کو منی لانڈرنگ کے کیس میں این آئی اے کے عہدیداروں نے حراست میں لیتے ہوئے کئی گھنٹوں تک پوچھ تاچھ کے بعد رہا کردیا ۔
حراست میں لینے کے دوران مشتعل ہجوم نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی ٹیم کے خلاف زبردست ہنگامہ کیا اور مولانا کو این آئی اے کی حراست سے آزاد کروا کر قریب کے ایک مسجد منتقل کردیا ۔جس کے بعد تین گھنٹے کی مشقٹ کے بعد این آئی اے کے عہدیداروں نے پولیس کی مدد مقامی لوگوں سے آزاد کروا کر مولانا کو اپنے ساتھ لے گئے۔
۔ غیر ملکی فنڈنگ معاملے میں این آئی اے نے یوپی اے ٹی ایس کے ساتھ مل کر چہارشنبہ کی رات 2.30 بجے جھانسی سپر کالونی میں مفتی کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ٹیم نے 8 گھنٹے تک گھر کی تلاشی لی اور پوچھ چھ کی۔
جمعرات کی صبح جب مفتی کو حراست میں لینے کے بعد ٹیم گھر سے باہر نکلنے لگی تو مقامی لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ ٹیم نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مفتی کے حامی بحث کرتے ہوئے مشتعل ہوگئے۔ کچھ ہی دیر میں وہاں 200 سے زیادہ لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
ہجوم نے مفتی کو آزاد کرنا شروع کر دیا این آئی اے نے لوگوں کو بھگانے کی کوشش کی۔ اس دوران ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ لوگ مفتی کو گھسیٹ کر ساتھ لے گئے۔ یہ واقعہ علی گول کھرکی کے قریب سلیم باغ میں پیش آیا۔
اس دوران انہوں نے ہنگامہ برپا کرنے والے لوگوں اور گھر والوں کو سمجھایا تو سب مان گئے۔ اس کام میں پولیس کو 3 گھنٹے لگے۔ بدامنی پھیلانے والے 100افراد کے خلاف ایف آئی آر کی گئی ہے
۔
سپر کالونی جہاں مفتی کا گھر واقع ہے وہ مسلم اکثریتی ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب این آئی اے کی ٹیم مفتی کے ساتھ جانے لگی تو مسجد سے اعلان کر کے عوام کو بلایا گیا۔ اس کے بعد اچانک خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئی۔
انھیں این آئی اے کی حراست سے آزاد کرانے کے بعد ہجوم مفتی خالد کو ان کے گھر سے 50 میٹر دور فاطمہ مسجد لے گئے مفتی کو اندر بٹھا دیا گیا۔ 200 مرد و خواتین مسجد کے باہر کھڑے تھے۔ ہجوم کو دیکھ کر این آئی اے اور یوپی اے ٹی ایس کی ٹیمیں وہاں سے ہٹ گئیں۔
این آئی اے ذرائع نے بتایا کہ مفتی کے گھر پر غیر ملکی فنڈنگ کے سلسلے میں چھاپہ مارا گیا۔ مفتی خالد مدرسہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی بچوں کو مذہبی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ وہ اردو اور عربی بھی پڑھاتے ہیں۔
این آئی اے، جو کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس کی تحقیقات کر رہی ہے، کو مفتی کے بارے میں معلومات ملی تھیں۔ اس کے بعد ٹیم نے یہاں چھاپہ مارا۔ مفتی خالد جھانسی شہر کے قاضی سیور انصاری کے بھتیجے ہیں۔ ایسے میں ان کی اپنی برادری میں اچھی گرفت ہے۔
ٹیم نے واٹس ایپ چیٹ کو چیک کیا۔ نمبروں کے بارے میں معلومات لی۔ گروپوں کے بارے میں پوچھا – اتنے نمبر کہاں سے آئے؟ میں نے ان سے کہا کہ میں آن لائن کلاس لیتا ہوں۔ اس کے لیے اشتہارات بھی چلائے جاتے ہیں۔ میرے پورے اکاؤنٹس کو تلاش کیا۔ طلباء کے داخلہ فارم بھی دیکھیں۔