[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران ترکی کے ساتھ متنازعہ امور پر مذاکرات کی کوشش کررہا ہے۔ شام کے فسادات اور تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
العربی الجدید کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں میں توسیع اور ان کی طاقت میں اضافہ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور اس سے ایران سے زیادہ شام کے ہمسایہ ممالک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترکی، عراق اور اردن کو دوسروں کے مقابلے میں شام کی داخلی صورت حال سے زیادہ خدشات ہیں اور وہ زیادہ متاثر ہیں اور اگر شام میں دہشت گردی پھیلتی ہے تو ان تینوں ممالک کو شام کے ساتھ اپنی طویل مشترکہ سرحدوں کی وجہ سے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ برسوں کا ہمارا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ علاقائی استحکام خطرے میں پڑسکتا ہے۔ ہمارے پاس دہشت گرد گروہ داعش اور اس کے جرائم اور خطے کے ممالک پر حملوں کا تجربہ ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے گروہ ابھر کر سامنے آئیں گے۔ ہمیں مل کر اس مسئلے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ میں نے ترکی کا دورہ کیا اور وزیر خارجہ ہاکان فدان سے بات چیت کی۔ ایران اور ترکی خطے اور عالمی معاملات پر مشترکہ خیالات رکھتے ہیں البتہ یقینا ہمارے درمیان اختلافات بھی ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور اپنے مشترکات کے بارے میں ہم آہنگی اور تعاون کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں ہم بات چیت کے ذریعے ایک حل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ شام کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر اس حقیقت پر مبنی ہے کہ دمشق صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے میں سب سے آگے ہے۔ شام میں ہونے والی دہشت گردی اور فسادات غیر ملکی ایجنٹوں کی کارستانی ہے۔ خاص طور پر صیہونی حکومت کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے تاکہ شام کو مزاحمت کے محور سے باہر نکالا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گذشتہ دو سالوں کے دوران تعلقات مثبت سمت میں جارہے ہیں۔ دونوں خطے کے اہم اور بڑے ممالک ہیں جو ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایران خلیج فارس کے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات مزید بہتر اور مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ صہیونی حکومت نے 26 اکتوبر کو ایران کی حاکمیت اور سالمیت پر حملہ کیا۔ ایران اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایران دانشمندی اور بھرپور حکمت عملی کے ساتھ اس کا جواب دے گا۔ ہم اس حوالے سے ایسا فیصلہ کریں گے جو ایران اور خطے کے مفاد میں ہو۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حماس کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں اس کی شکست کی واضح دلیل ہے۔ غزہ میں اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد نتن یاہو بند گلی پہنچ گئے ہیں۔ حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی سے صہیونی حکومت مذاکرات پر مجبور ہوگئی ہے۔