[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان میں حزب اللہ اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے بعد شام کے صوبے حلب اور ادلب میں تکفیری دہشت گردوں نے حملے کرکے متعدد شہروں پر قبضہ کیا ہے۔
شامی حکام اور مبصرین کے مطابق امریکہ اور اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ شامی حکومت سے لے رہے ہیں۔
دفاعی ماہرین ترکی کے کردار کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ترک صدر اردوگان نے بشارالاسد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے عزائم کی طرف اشارہ کیا تھا۔ حلب اور ادلب سے شروع ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بارے میں دمشق یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر ڈاکٹر حلوا صالح نے دہشت گرد تنظیم تحریر الشام کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔
ڈاکٹر حلوا صالح نے کہا کہ شام اپنی مخصوص سیاسی شناخت کی وجہ سے فلسطین کے مظلوم اور محروم لوگوں کے ساتھ رہا ہے، دمشق نے ان کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ وہ لبنان کا بھی حامی رہا ہے اور اس نے ہمیشہ حزب اللہ کی لاجسٹک اور دفاعی حمایت کی ہے۔
صدام کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران شام نے اعلان کیا کہ وہ ایران کا حامی ہے۔ آج بھی ایران شام کے ساتھ کھڑا ہے اور شام اور ایران کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے۔ شامیوں اور ایرانیوں کا خون ایک ہے اور ان دونوں ممالک کے تعلقات دنیا کے تمام ممالک کے تعلقات سے زیادہ مضبوط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر شام نہیں ہے تو مزاحمت کا وجود بھی پورا نہیں ہوگا۔ شام لبنان اور فلسطین میں حزب اللہ کی امدادی لائن ہے۔ ایران شام کے راستے مزاحمتی محور کے ممالک یعنی فلسطین، حزب اللہ، لبنان، یمن اور عراق کے ساتھ رابطہ جاری رکھ سکتا ہے۔
اگر شام سقوط کرگیا تو فلسطین بھی ختم ہوجائے گا۔ چونکہ شام مزاحمت کا گیٹ وے ہے اور ایران اور مزاحمت، خاص طور پر لبنانی حزب اللہ کے درمیان رابطے کا مرکز ہے اس لیے اس پر دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے حملہ کیا ہے۔
حلب کی تاریخی اور اقتصادی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر حلوا صالح نے کہا کہ حلب کو پوری تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ حلب شام کا اقتصادی دارالحکومت ہے. یہ شہر ترکی کی سرحد کے ساتھ سرحد ملتا ہے۔ ترکی نے جنگ کے پہلے دن سے ہی اس شہر کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ حلب میں تمام فیکٹریاں ترکی کو منتقل کردی گئیں۔
فسادات ادلب میں ہوئے، اور ادلب کی سرحد بھی ترکی کے ساتھ ملتی ہے۔ حملے اور بغاوت کے احکامات ترکی سے جاری کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے لیے حلب شہر میں داخل ہونا آسان تھا۔ ترکی نے ہمیشہ ان دہشت گردوں کی حمایت کی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حلب اور ادلب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دہشت گرد گروہ تحریر الشام کی کارروائیاں حلب سے کیوں شروع ہوئیں۔ ترکی کی مدد سے یہ دہشت گرد گروہ سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اردوغان کی بیٹی نے ایکس پر یہ بھی لکھا ہے کہ ہم 100 سال بعد تقریبا واپس آ گئے ہیں۔
تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے میڈیا اور انٹرنیٹ پر پروپیگنڈے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج شام میں دہشت گردوں کی طرف سے نہ صرف روایتی بلکہ نفسیاتی جنگ بھی جاری ہے۔ شامی عوام کے حوصلے پست کرنے کے لیے غلط افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد اس وقت ملک کے اندر ہیں جب کہ افواہیں پھیلیں کہ وہ بھاگ گئے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے عراق پر امریکی حملے کے دوران بھی میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اور ان افواہوں نے عراقی عوام کے حوصلے پست کر دیے تھے۔ آج ہمیں شام میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
الحدث، العربیہ اور الجزیرہ شام مخالف ذرائع ابلاغ میں شامل ہیں جو شام کے سقوط اور فوجیوں کے انخلا اور ہتھیار ڈالنے کے بارے میں جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شامی فوجیوں نے 13 سال میں کبھی دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، آج وہ ہتھیار کیسے ڈالیں گے؟
شام کے تازہ ترین حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ دمشق اور تمام علاقوں میں صورتحال بہت اچھی ہے۔ لوگ کام پر جارہے ہیں۔ معمولات زندگی چل رہے ہیں۔ حلب اور حما میں جھڑپیں جاری ہیں۔ ان شاء اللہ شامی فوج کوششوں اور شام کے حامیوں کی مدد سے یہ دونوں اہم شہر جلد آزاد ہوجائیں گے۔ شام کی جنگ کوئی خانہ جنگی نہیں ہے۔
یہ جنگ شام میں امریکہ اور صہیونی حکومت نے شروع کی ہے۔ جیسے ہی لبنانی حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ شروع ہوا، حلب میں دہشت گرد گروہ تحریر الشام کا حملہ شروع ہوا اور شہر پر دہشت گردوں کا قبضہ ہوگیا۔
غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکی یہی وجہ ہے کہ اس نے جنگ کا دائرہ شام تک بڑھا دیا ہے اور یہاں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔