لوک سبھا انتخاب 2024: مہاراشٹر کے مغربی وِدربھ اور مراٹھواڑہ کی 8 سیٹوں پر کل ہونے والی ووٹنگ میں اثر دکھا سکتا ہے کسانوں کا غصہ

[]

مہاراشٹر میں دوسرے مرحلہ میں مغربی وِدربھ اور مراٹھواڑہ کے ایسے علاقوں میں کل ووٹ ڈالے جائیں گے جہاں کسان کئی مسائل سے نبرد آزما ہیں، اسی علاقہ سے کسانوں کی خودکشی کی خبریں سب سے زیادہ آتی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

مہاراشٹر کے مشرقی وِدربھ کی 5 لوک سبھا سیٹوں پر 19 اپریل کو پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں جس طرح سے ووٹرس نے اپنے رجحان ظاہر کر برسراقتدار طبقہ کی نیند اڑا دی ہے، اس کا عکس اب کل یعنی 26 اپریل کو مغربی وِدربھ اور مراٹھواڑہ کی 8 لوک سبھا سیٹوں پر دوسرے مرحلہ میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران بھی دکھائی دینے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ علاقے میں آسمان سے گرمی برس رہی ہے جس کا اثر کل کے ووٹرس پر بھی دکھائی دے سکتا ہے۔ دوسری وجہ ان 8 لوک سبھا حلقوں میں کسانوں کے اندر اقتدار سے زبردست ناراضگی ہے جس کی وجہ سے ووٹنگ فیصد میں نشیب و فراز دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

پہلے مرحلہ میں شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں زیادہ ووٹنگ ہوئی تھی، اس کے باوجود 2019 (64.1 فیصد) کے مقابلے 2024 (61.06) میں تقریباً 3 فیصد کم ووٹنگ ہوئی۔ اسے اقتدار مخالف ووٹنگ کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس لیے بی جے پی نے اپنے کارکنان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ووٹرس کو بوتھ تک لائیں۔ لیکن کسان جس طرح سے غصے میں ہیں، اس سے ووٹنگ میں کمی کا امکان ہے۔

مہاراشٹر میں دوسرے مرحلہ میں مغربی وِدربھ کے بلڈھانہ، اکولا، امراوتی، وردھا ایوت محل-واشم لوک سبھا حلقہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے، تو مراٹھواڑہ کی تین لوک سبھا سیٹوں ناندیڑ، پربھنی اور ہنگولی میں بھی ووٹنگ ہوگی۔ ان 8 لوک سبھا سیٹوں کے لیے 204 امیدوار میدان میں ہیں اور یہاں 14925912 ووٹرس ہیں۔ ان سبھی حلقوں میں کسان کئی طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہیں اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں سے کسانوں کی خودکشی کی خبریں سب سے زیادہ آتی ہیں۔

بی جے پی کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے مہاراشٹر کو کسانوں کی خودکشی سے پاک بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔ کسان دباؤ گروپ وِدربھ جَن آندولن کمیٹی کے بانی کشور تیواری جو اعداد و شمار بتاتے ہیں اس سے یہ تو صاف ہے کہ مودی کے دور میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات زیادہ پیش آئے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں اپریل 2014 سے دسمبر 2023 تک مہاراشٹر میں ریکارڈ 32416 کسانوں کی موت خودکشی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس سے قبل کی دہائی کو دیکھا جائے تو 2004 سے 2014 تک یو پی اے حکومت کے دوران کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار تقریباً 26000 تھے، یعنی این ڈی اے حکومت کے دوران 6416 کسانوں کی خود کشی کے واقعات زیادہ پیش آئے۔

کسانوں کی خودکشی اس مرتبہ بھی انتخاب کا اہم ایشو بنا ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ سرکاری منصوبوں کے تحت کسان استفادہ کنندہ بھی ہیں، لیکن ایسے فائدے سے کسانوں کی زندگی نہیں بدل پا رہی ہے۔ کسان کئی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے بے موسم بارش، ژالہ باری، طوفان اور کبھی کبھی کم بارش کی بھی پریشانیاں ہیں۔ کسانوں کو مرکز اور ریاستی حکومت سے سال میں ایک ایک لاکھ روپے ملتے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہے۔ ان کا مطالبہ سستی شرح پر بیج اور کھاد مہیا کرانے کا ہے۔

کسانوں کے مسائل نہ صرف وِدربھ بلکہ مراٹھواڑہ اور خاندیش-شمالی مہاراشٹر میں بھی ایک اہم ایشو ہے۔ وِدربھ میں کپاس اور سویابین کی زراعت کرنے والے کسان بری طرح سے متاثر ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے 2014 کے انتخابی منشور میں جو وعدہ کیا تھا، اس کے مطابق مودی حکومت نے کسانوں اور زرعی مزدوروں کے کنبوں کو ایک بھی روپے کی راحت قرض سے نہیں دی ہے۔ وِدربھ اور مراٹھواڑہ کے علاقوں میں سڑک کی تعمیر تو دیکھنے کو ملے گی، لیکن زرعی مسئلہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے کسانوں میں ناراضگی بھری ہوئی ہے۔

مغربی وِدربھ اور مراٹھواڑہ میں بھی شیوسینا اور این سی پی کی تقسیم کے بعد سیاسی حالات بدلے ہیں۔ پہلے بی جے پی اتحاد اور کانگریس اتحاد کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا، لیکن اس بار علاقائی پارٹیوں میں تقسیم کی وجہ سے کئی بڑے لیڈران کا وقار داؤ پر ہے۔ مراٹھواڑہ کے ناندیڑ میں کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے اشوک چوہان اپنی سیاسی زمین پر بے حد کمزور نظر آ رہے ہیں۔ ان کے خلاف مراٹھا متحد ہیں اور وہ مراٹھوں کو راغب نہیں کر پا رہے ہیں۔ ناندیڑ میں چوہان کو بی جے پی کے اسی امیدوار کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری ہے جن سے وہ 2019 میں ہار گئے تھے۔ اس سے چوہان حامی حیران و پریشان ہیں۔ بی جے پی نے موجودہ رکن پارلیمنٹ پرتاپ راؤ چکھلکر پاٹل کے سامنے کانگریس کے وسنت راؤ پاٹل اور پرکاش امبیڈکر کی قیادت والی ونچت بہوجن اگھاڑی (وی بی اے) کے اویناش بھوسیکر ہیں جس سے یہاں مقابلہ سہ رخی ہو گیا ہے۔

پربھنی میں دو مرتبہ کے شیوسینا رکن پارلیمنٹ سنجے جادھو، جو اب ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا (یو بی ٹی) میں ہیں، ان کے سامنے بی جے پی حامی ’راشٹریہ سماج پکش‘ کے لیڈر مہادیو جانکر ہیں۔ یہاں پر دونوں امیدواروں کے لیے انتخابی نشان کا مسئلہ ہے۔ شیوسینا کے پاس پرانا انتخابی نشان نہیں ہے، بلکہ انھیں مشعل انتخابی نشان کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنا پڑا ہے۔ مہادیو جانکر اجیت پوار گروپ کے کوٹہ سے میدان میں ہیں، لیکن انھیں نہ تو اجیت گروپ کی گھڑی اور نہ ہی بی جے پی کا کمل انتخابی نشان ملا ہے۔ وہ سیٹی کے انتخابی نشان پر میدان میں ہیں۔ جادھو کے سامنے مہادیو کمزور امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں، کیونکہ انھیں اپنے سماج دھنگر کی بھی پوری حمایت حاصل نہیں ہے۔

ہنگولی میں شیوسینا بنام شیوسینا کی لڑائی ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا (یو بی ٹی) کے ناگیش پاٹل اشٹیکر اپنے مخالف امیدواروں کو سخت ٹکر دے رہے ہیں۔ بی جے پی کی مخالفت کے سبب ایکناتھ شندے کی شیوسینا کے موجودہ رکن پارلیمنٹ ہیمنت پاٹل کی امیدواری بدلنی پڑی۔ ان کی جگہ پر بابوراؤ کدم کوہالیکر کو میدان میں اتارا گیا۔ یہاں مہایوتی میں ہی بہت زیادہ نااتفاقی بنی ہوئی ہے۔ ایکناتھ شندے کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے ہیمنت پاٹل کی بیوی راج شری پاٹل کو وِدربھ کی ایوت محل-واشم سیٹ پر اتارا گیا۔ اس سیٹ سے پانچ بار رکن پارلیمنٹ منتخب کی جانے والی بھاؤنا گولی کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے، کیونکہ وہ اقتدار مخالف لہر کا سامنا کر رہی ہیں۔ وی بی اے نے ڈاکٹر بی ڈی چوہان کو اس سیٹ سے میدان میں اتارا ہے۔ ادھو گروپ کی شیوسینا نے یہاں سے سنجے دیشمکھ کو میدان میں اتارا ہے۔

کسانوں کی خودکشی کی راجدھانی کے طور پر مشہور وِدربھ کے مغربی علاقہ کے لوک سبھا حلقوں میں بھی اقتدار مخالف لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان علاقوں میں خود پی ایم مودی انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔ امراوتی (ایس ٹی) ایک محفوظ سیٹ ہے۔ یہاں سے بی جے پی نے نونیت رانا کو امیدوار بنایا ہے، جس سے شندے کے ساتھی آنند اڈسول اور ان کے بیٹے ابھجیت اڈسول بے حد خفا ہیں۔ علاوہ ازیں مہایوتی میں شامل رکن اسمبلی بچو کڈو نے اپنی پارٹی ’پرہار جن شکتی پارٹی‘ کی طرف سے دنیش بابو کو میدان میں اتار دیا ہے اور رانا کے خلاف جم کر انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔ بی جے پی اتحاد کے اس تضاد والے ماحول میں کانگریس امیدوار بلونت وانکھیڑے کافی اچھی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔

وَردھا میں بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ رام داس تڑس اور انڈیا اتحاد و ایم وی اے امیدوار امر کالے کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔ بلڈھانہ میں بھی شیوسینا بنام شیوسینا کی لڑائی ہے۔ ایکناتھ شندے کی شیوسینا سے امیدوار پرتاپ راؤ جادھو کا مقابلہ ادھو ٹھاکرے گروپ کی شیوسینا کے پروفیسر نریندر کھیڈیکر سے ہے۔ کسان لیڈر روی کانت تپکر، جو کبھی راجو شیٹی سے جڑے ہوئے تھے، وہ بھی میدان میں ہیں۔

اکولا میں مقابلہ سہ رخی ہے۔ دو بار کے لوک سبھا رکن اور ایک بار کے راجیہ سبھا رکن پرکاش امبیڈکر مزید ایک کوشش کر رہے ہیں۔ 4 بار رکن پارلیمنٹ رہ چکے اور موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ سنجے دھوترے کے بیٹے انوپ دھوترے و کانگریس کے ڈاکٹر ابھے پاٹل، جو پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ایک آرتھوپیڈک سرجن ہیں، ان کے خلاف میدان میں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *