ائمہ کرام سے یونائیٹڈ مسلم فورم کی اپیل

[]

حیدرآباد: یونائٹیڈ مسلم فورم نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ انتخابی تقاریر کو ان کی مسلم دشمنی اور ان کے تعصب سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور ان کے ان بیانات کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کی توہین کے مترادف قرار دیا۔

فورم کے ذمہ داران مفتی سید صادق محی الدین فہیم (صدر)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا سید حسن ابراہیم حسینی قادری سجاد پاشاہ، مولانا میر قطب الدین علی چشتی،

ضیا الدین نیر، سید منیر الدین احمد مختار (جنرل سکریٹری)، مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا محمد شفیق عالم خان جامعی، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مفتی محمد عظیم الدین انصاری، مولانا سید احمد الحسینی سعید قادری، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولانا ابوطالب اخباری، مولانا سید شاہ فضل اللہ قادری الموسوی، مولانا میر فراست علی شطاری،

ڈاکٹر مشتاق، ایم اے ماجد، مولانا خواجہ شجاع الدین افتخاری حقانی پاشاہ، مولانا ظفر احمد جمیل حسامی، مولانا عبدالغفار خان سلامی، ڈاکٹر نظام الدین،بادشاہ محی الدین و دیگر ذمہ داران نے کہا کہ گذشتہ دس سال سے حکومت کررہے نریندر مودی جو سب کا ساتھ کا نعرہ دیا کرتے رہے ہیں، نے انتخابات میں ہندو اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے انہوں نے مسلمانوں کو گھس پیٹھیا قرار دیا،

زیادہ بچے پیدا کرنے والا بتایا اور مودی ہندو خواتین کے مقدس منگل سوتر کی دہائی دے کر ان کو خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ہندو طبقے میں ڈر و خوف پیدا کرکے جھوٹ، فریب، تعصب، نفرت اور سماج کی تقسیم کے ذریعہ اپنے اقتدار کی عمارت کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔درج فہرست اقوام و قبائل کو مسلمانوں سے متنفر کرنے جھوٹ کی بنیاد پر یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ان طبقات کے تحفظات کو کاٹ مسلمانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس قدر جھوٹ شاید کسی عوامی قائد نے کی ہو۔ نریندر مودی گجرات کے مسلم کش فسادات کے دائرے سے خود کو باہر نہیں لاسکے، حالانکہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے علاوہ اپنے آپ کو وشواگرو یعنی ورلڈ لیڈر بھی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔

فورم کے ذمہ داروں کا یہ احساس ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلہ کے بعد نریندر مودی اور پارٹی کے دیگر قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں، آنیوالے مزید انتخابی مرحلوں میں ان کی یہ بوکھلاہٹ مزید بڑھ سکتی ہے۔ زبانی جمع خرچ کے بعد وہ عملی طور پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے بعد بھی الیکشن کمیشن سے کوئی خصوصی کاروائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ ان حالات میں ملک کی عوام کو چاہیے کہ وہ ملک و سماج کو باٹنے والی ان طاقتوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔

فورم کے ذمہ داران نے ووٹ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس کے لئے بڑے پیمانے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ظاہر کی.

فورم نے ائمہ مساجد و خطیب صاحبان سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کے خطاب میں ملک کے موجودہ حالات کا احاطہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو صدفیصد رائے دہی کی ترغیب دیں، اس لئے کہ یہ انتخابات نہ صرف ملک میں جمہوریت کی بقاء، سلامتی بلکہ قانون کی حکمرانی کی بھی سمت متعین کریں گے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *