راہل گاندھی نے کم کہا، آگ تو پورے ملک میں لگی ہے، بس کچھ لوگ اس کی گرمی محسوس نہیں کر پا رہے

[]

راہل گاندھی جو کہہ رہے ہیں، وہ مستقبل کی بات نہیں ہے، وہ سب ہو رہا ہے لیکن ہم انھیں نظر انداز کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر&nbsp;<a href="https://twitter.com/INCIndia">@INCIndia</a></p></div>
user

کیا راہل گاندھی یہ تنبیہ دے کر گھبراہٹ پیدا کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی تیسری مدت کار کے دوران ملک میں آگ بھڑک اٹھے گی؛ کہ یہ ہندوستان کے لیے ایک حقیقی آفت ہوگی؟ کیا ان کا یہ بیان کہ ’اگر بی جے پی انتخاب جیتتی ہے تو وہ اس طرح آئین بدل دے گی جو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا‘ اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بی جے پی کے لیے مزید ایک موقع ملک کے لیے ’تباہی‘ والا ہوگا۔ جب راہل گاندھی یہ خوف ظاہر کرتے ہیں تو کیا وہ ’ناسمجھ‘، ’نامناسب‘، ’گمراہ کن تشہیر‘ میں ملوث ہیں۔

میں اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد ’انڈیا‘ بلاک کی رام لیلا میدان میں راہل گاندھی کی تقریر پر بڑے میڈیا کے ایک طبقہ کے رد عمل سے متعلق بات کر رہا ہوں۔ یہ تھوڑی راحت کی بات ہے کہ میڈیا کے ایک گروپ نے ریلی کی رپورٹنگ کرنے اور اپنے قارئین و ناظرین کو اس کی رپورٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اپوزیشن کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے، اس بارے میں بات کرنے کے لیے بہت کوشش اور ہمت کی ضرورت پڑی ہوگی۔ ایسا اس لیے کیونکہ اپوزیشن کی مذمت کرنے کی عادت کو توڑنا اور مودی پر مرکوز رہنے کے علاوہ کچھ سوچنا آسان نہیں۔

حقیقی سوال

آئیے ہم اس بے چینی کی طرف لوٹتے ہیں جو راہل گاندھی کی ’تباہی‘ والی تنبیہ نے میڈیا اور تبصرہ نگاروں میں پیدا کی ہے، جو ہر چیز کا ’پیمائش شدہ‘ اور ’متوازن‘ نظریہ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ جو آگ سے تباہ ہوئے گھروں میں لوگوں کو یہ یقین دلا کر خاموش کرنا پسند کرتے ہیں کہ آسمان نہیں ٹوٹ پڑا ہے، کہ چھت اور دیواریں اب بھی برقرار ہیں اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں مایوس ہونا پسند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب راہل گاندھی ’پینک بٹن‘ دباتے ہیں تو وہ ان کی مذمت کرتے ہیں: آخر کار ان کے جیسے سینئر لیڈر کو اس طرح خوفزدہ کرنے والی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا!

کیا راہل گاندھی زیادتی کر رہے ہیں؛ کیا وہ زیادتی میں مصروف ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سخت الفاظ کا استعمال کیا ہو، جو ہمارے ہاضمے کے لیے دلچسپ نہ ہوں اور ہم متوازن الفاظ کے عادی ہو گئے ہوں، لیکن کیا وہ غلط ہیں؟

انھوں نے تنبیہ کی کہ اگر لوگوں نے اس حکومت کو اقتدار میں لوٹنے کی اجازت دی تو ’پورے ملک میں آگ لگنے جا رہی ہے‘۔ لیکن مجھے ایسا لگا کہ میں اس سے کہہ دوں کہ یہ مستقبل میں کچھ ہونے کا سوال نہیں ہے۔ انھیں کہنا چاہیے تھا کہ ملک میں پہلے سے ہی آگ لگی ہوئی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ایک بڑے طبقہ کو اس آگ کی گرمی کا احساس نہیں ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جسے ہم قبول نہیں کرنا چاہتے، کہ ہم میں سے کئی لوگ اس آگ سے محفوظ محسوس کرتے ہیں- یہ نفرت اور تشدد کی وہ آگ ہے جو مسلمانوں کے تئیں مہدف ہے۔

یہ میرا اعتماد ہے کہ اگر آپ واقعی میں مسلمانوں کے قریب جا کر ان کے دلوں میں جھانکنے میں کامیاب رہے، تو آپ پائیں گے کہ یہ آگ ان کی روح پر کیا اثر کر رہی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اسے نہیں دیکھتے ہیں، شاید اس لیے کہ مسلمانوں کو بھروسہ نہیں ہے کہ ان کے درد پر آہ بھری جائے گی- ان کے بیشتر ہم وطنوں میں اپنا درد بیان کرنے کی بات تو چھوڑ ہی دیجیے۔

افطار: ایک فرق کے ساتھ

ایک ہفتہ پہلے مجھے ایک غیر معمولی افطار میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے اہل خانہ کے لیے تھا جو دہلی تشدد کی سازش معاملے میں گزشتہ چار سال سے جیل میں ہیں۔ جاوید محمد صاحب بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ آپ شاید نیوز ایڈیٹر جاوید کو بھول گئے ہوں گے۔ وہ الٰہ آباد کے رہنے والے ہیں اور بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے نازیبا تبصرہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے بعد انھیں یوپی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

امن کے یے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ سرگرم طریقے سے کام کرنے والے جاوید صاحب کو ماسٹر مائنڈ قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی تکلیف یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جس مکان میں وہ رہتے تھے، اسے انتظامیہ نے توڑ دیا۔ یہ ان کا گھر نہیں تھا، یہ ان کی بیوی کو ان کے والدین نے تحفے میں دیا تھا۔ جاوید صاحب کو جیل ہو گئی اور ان کا کنبہ بے گھر ہو گیا۔ یہ یقینی طور سے ان کے محلے یا الٰہ آباد کے لیے بھی کوئی آفت نہیں تھی۔ کیا ہم یہاں دہلی میں بیٹھے ہوئے لوگ جے سی بی مشینوں اور بلڈوزورس کے ذریعہ گھر منہدم کیے جانے کے بعد اس دھول کو اپنے اندر لے گئے؟ نہیں، یہ یقینی طور سے تباہی نہیں تھی۔

جاوید نے افطار میں خطاب کیا۔ ان کی نرم اور متوازن آواز سن کر میں حیران رہ گیا۔ وہ نہ تو ناراض لگ رہے تھے، نہ ہی ان میں تلخی تھی۔ ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ شکایت کر رہے ہیں۔ کیوں؟ انھوں نے یہاں تک کہا کہ جیل میں کچھ وقت گزارنے سے ہم سبھی کو کچھ فائدہ ہوگا۔ تب ہم دیکھیں گے کہ ہم سے بھی زیادہ قابل رحم، زیادہ مایوس حالات میں لوگ ہیں۔ انھوں نے وہاں موجود سبھی لوگوں کو ان کے اتحاد کے لیے شکریہ ادا کیا۔

پھر ہم نے ایک نوجوان خاتون کو سنا جن کے والد کو 2020 کے دہلی تشدد سازش معاملے میں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وہ اپنا چوتھا سال جیل میں گزار رہے ہیں۔ پھر بھی ان میں تلخی نہیں تھی۔ اور پھر عمر خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس تھے۔ عمر خالد جیل میں اپنا چوتھا سال مکمل کرنے والے ہیں۔ دہلی پولیس کے الفاظ میں وہ 2020 دہلی تشدد کے ماسٹرمائنڈ میں سے ایک ہیں۔ ان میں بھی تلخی نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں بات تو کی، لیکن ہم سبھی سے جمہوری جنگ لڑنے کو کہا۔ نہیں، وہ بھی ناراض نہیں تھے۔

’ہماری‘ دنیا سے بالاتر

تازہ معاملہ اتراکھنڈ کے ہلدوانی کا ہے۔ اور پھر آپ آسام کا سفر کر سکتے ہیں جہاں یہ ایک روزمرہ کا تجربہ ہے، خاص طور سے بنگالی زبان والے مسلمانوں کے لیے جو وہاں دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ وہاں سے بے دخل ہونا، لگاتار کشیدگی میں رہنا۔ آسام کے مسلمانوں کی حالت کا تصور خود کریں جنھیں اپنے وزیر اعلیٰ سے روزانہ بے عزتی اور دھمکیاں سننی پڑتی ہیں۔

مجھے ان وکلاء کا فون آیا جو جنید کے قتل معاملے کو از سر نو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے تجزیہ کاروں اور مدیروں کی یاد میں ان کا چہرہ مندمل ہو گیا ہوگا۔ چلتی ٹرین میں ہندوؤں کی ایک بھیڑ نے 15 سالہ لڑکے کا قتل کر دیا تھا۔ قاتل کھلے عام گھوم رہا ہے اور ایک مسلمان کو ٹھکانے لگانے کے اپنے عظیم کارنامے کو بیان کر رہا ہے۔

تصور کیجیے کہ آپ مسلمان ہیں اور ٹی وی چلا رہے ہیں اور اینکرس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے اور خطرناک سازش تیار کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، یا نماز ادا کرتے وقت پولیس اہلکار اسے لات مارتے ہیں۔

کیا مدیروں کو اپنے ریل ٹکٹ رد کرانے کا من ہوا جب انھوں نے سنا کہ مسافروں کی سیکورٹی کے لیے تنخواہ دیے جانے والے ایک پولیس اہلکار نے چلتی ٹرین میں تین مسلم مسافروں کا قتل کر دیا، کیونکہ وہ مسلمان تھے؟ لیکن کئی مسلمانوں نے ایسا کیا۔ کیا وہ غیر ضروری طور پر گھبرا رہے تھے؟ آخر کیا یہ ٹریپل مرڈر کوئی استثنیٰ نہیں تھا؟

شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) سے مسلمانوں کو فکرمند کیوں ہونا چاہیے؟ اور قومی شہری رجسٹر (این آر سی) کی بات انھیں کیوں فکر میں مبتلا کرتی ہے؟ انھیں تین طلاق قانون سے بے عزتی محسوس کیوں ہونی چاہیے؟ اور کیا انھیں یکساں سول کوڈ سے بالکل بھی خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیے؟

نفرت سے بھرے مواد

فوج میں کام کر چکا ایک شخص گزشتہ دنوں مجھ سے ملنے آیا۔ انھوں نے ان دو واٹس ایپ گروپوں کے بارے میں بات کی جن میں ان کی سروس کے لوگ شامل ہیں اور جن کا وہ حصہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان گروپوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو دیکھ کر حیران ہیں۔ سروس کے دوران انھیں اس کا تجربہ ہوا تھا، لیکن انھوں نے اسے مستثنیٰ مان کر درکنار کر دیا تھا۔ لیکن ان پیغامات کو پڑھنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ اس قسم کا جذبہ، جو اُس وقت غیر ظاہر تھا، ان میں ہمیشہ سے رہا ہوگا۔ اس حکومت نے اب اسے مشتعل ہونے میں اہل بنا دیا ہے۔ اس نے اس کی حمایت کرنے والوں کو کھلے طور پر نفرت پھیلانے میں سرگرم ہونے کے لیے حوصلہ بخشا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اور بھی لوگ ان کے ساتھ جڑنے کے لیے تیار ہیں۔

نہیں، جب راہل گاندھی نے اپنے لوگوں کو اس حکومت کی تیسری مدت کار میں اس ملک کی ممکنہ تباہی کے بارے میں آگاہ کیا، تو وہ بھلا کیوں گھبرائیں! ہمیں تو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ راہل گاندھی وہ کیوں نہیں کہہ سکے جو اس مضمون میں واضح طور سے کہا گیا ہے۔

(مضمون نگار اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں استاد ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *